حضرت میاں میرکا دیوانہ
طالب ڪڇي
لاھور میں پاکستان کسان رابط کمیٹی کی دو روزہ کانفریس جس میں ایوب شان اور میں طالب کچھی نے شرکت کی تھی وہ کانفریس ختم ھوچکی تھی دیگر علاقوں سے آے ھوے شریک سماجی و سیاسی ساتھی سب جانے کی تیاری میں مصروف تھے میں اور ایوب شان نے تمام ساتھیوں سے آخری الوداع ھی ملاقات کی اور دوباہ ملنے کی امید پہ ایک دوسرے سے گلے ملے تمام ساتھی لارنس ھوٹل کہ کمرے خالی کر چکے تھے پر ھم لوگوں کا ایک رات رکنے کا پروگرام تھا ایوب شان نے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی رھنما صاعمہ اور طارق فاروق سے کہا کہ ھم آج رات اسی ھوٹل میں رھینگے صبح ھم چلے جاینگے صاعمہ نے ھوٹل انتظمیہ سے کہا یہ ھمارے مہمان آج رات رھینگے رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی اس میں شامل ھے ھم پیمٹ کر دیتے ھیں ھم نے صاعمہ اور طارق فاروق کا شکریہ ادا کیا اور ان سے بھی آخری الودع ھی ملاقات کی اور ھم اپنے کمرے میں چلے گیے کوی شام کے چار بجے ھونگے سفیران محبت پاکستان کے رھنما مقبول برفت صاحب نے مجھے کال کی اور کہا طالب بھای میں صبح سے آپکو کال کر رھا ھوں پر کال نھیں لگتی میں نے کہا جی سنگل کا پرابلم ھے شاھد یاد رھے میں بھی سفیران محبت پاکستان کا میمبر ھوں بارحال مقبول برفت صاحب نے خیر خیریت پوچھی اور کہا کیسا رھا پروگرام آپ کا میں نے کہا بہت زبردست بعد میں کہا کہ آپ جس ھوٹل میں ٹھہرے ھو اس سے کچھ فاصلے پہ فلم اسٹار مرحوم سلطان راھی کا گھر ھے اور اسی گلی میں کچھ آگے انکی مزار ھے حضرت شمش قادری کی مزار میں اور اسکے ساتھ کرسٹن قبرستان ھے اسی جگہ جس میں اداکارہ نیلو کی قبر بھی ھے نیلو جو اداکارشان کی والدہ تھی اور پاکستان فلم انڈسٹری کے انقلابی ھدایت کار ریاز شاھد کی بیوی تھی اور وہ مسلمان ھوگیی تھی اور انکا اسلامی نام میرے خیال میں عابدہ تھا نیلو کی آخری وصیت تھی کہ اسے اسکی والدہ کے پہلوں میں دفنایا جاے جب نیلو کا زکر آتا ھے تو اس بہادر عورت کو سلوٹ کرنے کو دل کرتا ھے یہ اس وقت کی بات ھے جب جنرل صدر ایوب خان اس ملک کے صدر تھے اور اس وقت وہ بہت مقبول اور ڈانس کی بہت ماھر اداکارہ تھی اس وقت ایک جنرل ایک ڈکٹر صدر ایوب خان نے ایوان صدر میں نیلو کو بلایا ایون صدر مہمانوں سے بھرا ھوا تھا اور اسے ناچنے کو کہا پر اس بہادر عورت نے انکار کیا تو اسے دھمکی دی گیی پر اس نے نیند کی گولیاں کھا لی اور وہ بیحوش ھوگیی وہ موت کے قریب ھوگیی پر ایک ڈکٹر جرنل کے آگے ناچنے سے اپنی موت کو ترجی دی بارحال وہ تو بچ گیی اسی بہادری کو دیکھتے ھوے اداکار شان کے والد ریاز شاھد نے اس سے شادی کی اور نیلو مسلمان ھوگیی جب نیلو نے جنرل ایوب کے سامنے ناچنے سے انکار کیا تو اس پس منظر کو شاحرانقلاب حبیب جالب نے اپنی قلم کو جنبش دی اور کہا رقس زنجیر پہین کر بھی کیا جاتا ھے ۔ توکہ نہ واقفہ آداب غلامی ھے ابھی بعد میں اسی گیت کو ریاز شاھد کی انقلابی فلم زرقا میں نیلو پہ فلمایا گیا جسے مہندی حسن کی دلکش آواز نے امر بنادیا زرقا پہلی پاکستان کی سب سے زیادہ چلنے والی فلم کا عزاز پایا بار حال بات آگے نکل گیی ھا تو مقبول برفت صاحب نے کہا طالب بھائ میں نے نگار اخبار کے چیف بیرو سید ساجد یزدانی کو کال کر کے بتایا ھے کہ ھمارے دوست طالب کچھی بھای کراچی سے آے ھیں ان دوستوں کو فلمی اسٹوڈیو کا وزٹ کرواے آپ یہاں سے جلد نکلے وہ آپ کا انتظار کر رھے ھیں میں نےکال ایوب شان کو دی برفت صاحب کی تاکہ ایوب شان سہی ایڈردس نوٹ کر لے برفت سے ایڈرس پوچھ کے ھم نے رکشہ پکرا اسی ایڈرس پہ پونچے تو سید ساجد یزدانی صاحب انتظار میں کھڑے تھےاونہوں نے ھمیں پہچان لیا اور نزدیک آکر کہا میں نے کیسے پہچان لیا آپ لوگوں کواور گرم جوشی سے ملے اور کہا ھم ایسا کرتے ھیں میٹروریلوے بس میں چلتے ھیں سیر بھی ھو جایگی آپ دوستوں کی اسٹیشن نزدیک تھا الیکٹر سیریاں ھمیں اوپر لے گیی تو یو محسوس ھوا کہ ھم کسی ایرپورٹ میں داخل ھوگیے ھیں بہت بہترین انتظام تھا ٹکیٹ نکال ھی رھے تھے کی میٹروبس آگیی 40 روپے کرایہ میں پورا لاھور ھم گھوم لو جب اندر داخل ھوے تو بہت ھی بہترین صفای ستھرای عالی درجے کی تھی بار حال آگے اسٹاپ پہ اوتر کر کچھ فاصلے پہ ایورنیواسٹو ڈیو آگیا جہاں ماضی کی سپر اسٹار فلموں کی شوٹنگ ھوا کرتی تھی جہاں صبح سے رات تک لوگوں کا ھجوم ھوتا تھا فلمی اداکاروں کو ایک نظر دیکھنے کے لیے اسٹوڈیو کے گیٹ پر جیسے ھی گیٹ پہ پونچے تو منیر احمد شرق پوری صاحب ھمارے انتظار میں کھڑے تھے گرمی جوشی سے ملے اور اندر لے گیے ان گیٹ کے پاس فلمسٹار محمدعلی کی آفیس تھی منیر احمد شرق پوری نے ھمیں دیکھتے ھوے کہا بڑی رونق ھوا کرتی تھی اس دوران سید ساجد یزدانی نے کہا آج کل بہت کم کام ھوتا ھے ڈراموں اور کبھی کبھی پنجابی فلموں کی شوٹنگ ھوتی رھتی ھے اپنی بات جاری رکھتے ھوے کہا آج کل زیادہ فلمیں کراچی میں بنتی ھیں اور اچھی فلمیں بنتی ھیں ایورنیو اسٹوڈیو کے بعد باری اسٹوڈیو کے بل کل گیٹ کے پاس ایک ھوٹل فنکار ھوٹل پہ ھمیں چاے پلانے لے گیے اور کہا یہاں کی گڑوالی چاے زبردست ھے اور اس ھوٹل پہ تمام فنکار چاے پینے آتے تھے اسی لیے اس ھوٹل کا نام فنکار ھوٹل ھے منیر احمد شرق پوری نے چاے کا آڈر دیا اور وہ ھم سب کی تصویریں نکالنے میں مصروف ھوگیا گڑوالی چاے اور بسکٹ آگیے ھم چاے سے لطف اندوز ھورھے تھے واقع چاے زبردست تھی سید ساجد یزدانی نے کہا طالب بھای یہ ھوٹل چوبیس گھنٹے کھلی رھتی ھے آپ دیکھے انکا شٹر ھی نھیں اب ظاھر ھے اب جوپہلے فنکاروں کا رش ھوتا تھا اب وہ نھیں اس لیے زیادہ حصہ ھوٹل کا کرایہ پہ دے دیا ھے جس میں مچھلی کی ڈش پکای جاتی ھے اس تھوڑے سے وقت میں یومحسوس ھوا جیسے ھم پرانے دوست ھوں بہت مخلص دوست ھیں بہت محبت دی اور ان سے رخصت ھونے کی اجازت مانگی تو دونوں دوستوں نے کھانے کے لیے کہا پر ھم نے دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور ایک دوسرے سے رابطے میں رھنے اور آیندہ ملنے کی امید کرتے ھوے ھم اپنے پیارے دوستوں سے ھاتھ ملا کر رکشے میں بیٹھ گیے رات لارنس ھوٹل میں آرام کیا اور صبح سویرے ناشتہ کر کے کمرے کی چابیاں ھوٹل کی انتظامیہ کے حوالے کر کے بیک کاندھیں پہ لٹکاے آستہ آستہ باغ جناح والے روڈ سے آگے کراس کرکے جب سلطان رھی کی قبر کے بارے میں رھا چلتے ھوے ایک بندے سے پوچھا تواس بندے نے ھاتھ کی انگلی سے اشارہ کرتے ھوے کہا یہ اداکار سلطان راھی صاحب کا گھر ھے ھم نے انکا شکریہ ادا کیا اور انکے گھر کی کچھ تصویریں لی اور آگے کچھ بچے کرکٹ کھیل رھے تھے میرے خیال میں اتوار کی چھٹی تھی نوجوانوں کو سلام کیا اور سلطان راھی کی مزار کے بارے میں پوچھا تو بڑی محبت سے آگے ایک گلی میں حضرت شمش قادری کی مزار کا بتایا وہ سمجھ گیے تھے ھمارے کاندھیں پہ لٹکتے بیک کو دیکھتے ھی یہ مہمان ھیں بارحال ھم پہلے حضرت شمش قادری کی مزار پہ فاتحہ پڑ کر اداکار سلطان راھی کی قبر پہ پونچے تو وہ چھوٹی سی خوبصورت چار دیوری جس پہ لکھا تھا الحاج محمد سلطان راھی شہید اور میں اور ایوب شان اندر داخل ھوکر فاتحہ خوانی اور انکی مغفرت کی دعا کی وہ بہت نیک دل انسان تھے نماز وروزے پابندی سے ادا کرتے تھے پنجابی فلموں کا سپر اسٹار تھے ھم بار نکل کر رکشہ پکرا اور رکشے والے کو دھرم پورا حضرت میاں میر کے مزار پہ جانے کو کہا اور ھم رکشے میں بیٹھ گیے کافی دور تھا دھرم پورا رکشہ لاھور کے خوبصورت روڈ سے دوڑتا ھوا دھرم پورہ کی جانب رواں دواں ھر جگہ ھریالی بچوں کے کھیلنے کے پارک اور بہت تفریں مقام راستے میں گزرے اچانک ایک اسکول پہ میاں میر اسکول لکھا دیکھا تو کچھ فاصلے پہ میاں میر ھسپتال تو میاں میر پارک اچانک ایک تنگ گلی میں داخل ھوے تو اس گلی کا نام بھی میاں میر گلی جیسے جیسے میاں میر کی مزار قریب آنے لگی تو کافی دوکانوں کے نام بھی میاں میر جنرنل اسٹور وغیرہ دیکھا جیسے میاں میر کا مزار آیا ھم رکشے سے اوتر کر اندر گیٹ سے داخل ھوے تو سبحان اللہ بہت بڑی جگہ تھی مزار کے باھر خواتین فاتحہ پڑتی نظر آی پوچھنے پہ پتا چلا کہ عورتوں کا مزار کے اندر داخلہ ممنوں ھے ھم اندر جاکر ایک صوفی کے مزار پہ عقیدت کے پھول نچھاور کیے اور فاتحہ پڑ کر باھر حضو خانے کے پاس ھی عظیم اداکار محمدعلی کی قبر تھی سنگ مرمر سے بنی جس کے کتبے پہ لکھا تھا سید محمدعلی ولد سید مولانا مرشدعلی میں نے اور ایوب شان نے قبر پہ پھولوں کی بتیاں نچھاور کی اور میں نے قبر کو کپڑے سے صاف کیا قبر صاف تھی رات بارش ھوی تھی اس وجہ سے کہی کہی پانی نظر آیا تو اسے صاف کیا پہلے سے قبر پھولوں سے ڈھکی ھوی تھی فاتحہ پڑ کر میں نے سرایوب شان کو کہا محمدعلی ایک اداکار ھی نھیں عظیم انسان بھی تھا یہی وجہ تھی کے وہ ایک مزھبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے انکے والد محترم ایک عالم دن اور ایک خطیب تھے مسجد میں محمدعلی جیسا اداکار پھر ملےنہ ممکن ھے اس ملک میں محمدعلی کی موت سے حقیقت میں فن اداکاری کا ایک باب ختم ھوگیا محمدعلی جسمانی حرکات وسکنات کے ساتھ ساتھ۔آواز کی ادایگی کو خوب سمجھتے تھے وہ بھارت کے سہراب مودی اور راجکپور کے والد پرتھیوی راج کے مدمقابل تھے پاکستان میں محمدعلی کے پاے کا کوی اور اداکار پیدا نہ ھو سکا اسکو تراشنے میں آواز کا بادشاہ زیڈ اے بخاری نے خوب محمدعلی کو وہ تمام آواز کے اوترو چراو کی پالیش کی اور ایسا صداکار کوی دوسرا نہ ھوسکا گرجدار آواز بہترین شخصیت . میرے خیال میں اس نے ھر قسم کے کردار ادا کیے میں کچھ دیر یہ سوچنے لگا کہ گلبرک لاھور میں محمدعلی کے بنگلے کے پاس ھی قبرستان ھے جہاں چاکلیٹی ھیرو وحید مراد دفن ھے جہاں عوامی اداکار سلطان راھی دفن ھے جہاں درپن دفن ھے اور کافی اداکار اسی قبرستان میں دفن ھیں پر اس مرد قلندر نے بہت دور اپنی وصیت کے مطابق حضرت میاں میر کے پاس دفانے کی وصیت کیوں کی جب میں نے اسکی ھسٹری پڑھی تو میرے دل میں خیال آیا آخر علی بھائ کی نگاھوں نے اک مست قلندر کو ڈونڈ ھی لیا آپ سندھ کے شہر سیون شریف کے رھنے والے تھے آپ کا نام میاں میرمحمد سندھی القادری اصل نام میر محمد تھا شہنشاہ اکبر کے دور میں وہ 25 برس کی عمر میں سیون سے لاھور ھجرت کی آپکی پیدایش سندھ میں ھوی اور آپ سندھی بولتے تھے اور وصال تک یہی رھے مغل خاندان حضرت میاں میر کے بڑے عقیدت مند تھے شہنشاہ جہانگر آپ سے ملنے آپ کے آستانے پہ خد آیا کرتے تھے جہانگر کے علاوہ شاہ جہاں شہزادہ داراشکوہ ۔ شہزادہ شیریار اور اورنگ زیب عالمگیر آپ کے دربار میں حاضری صادت سمجھتے تھے سکھ مزھب کے ماننے والے آپ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے یہی وجہ ھے جب گردوارے کا سنگ بناد رکھا گیا امرسر میں تو گرو ارجن نے میاں میر کے ھاتھوں سنگ بنیاد رکھویا یہی وجہ ھے جب حضرت میاں میر کا عرس ھوتا ھے تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی بڑی تعدات میں عرس میں شامل ھوتے ھیں شاہ جہاں کے فرزند داراشکوہ پہ جو سکولر کا رنگ تھا وہ حضرت میاں میر ھی کی بدولت تھا اور اس پہ صوفیوں کا رنگ چڑا ھوا تھا حضرت میاں میر کا جب انتقال ھوا تو انکی مزار کی تعمیر شہزادہ داراشکوہ نے کی اب مزار کی تعمیر کا کام جاری تھا تو اونگ زیب نے دراشکوہ کوقتل کروا دیا باقی تعمیر کا کام اورنگ زیب عالمگیر نے کیا لوگ حضرت میاں میر کی قبر پہ محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ھیں وھاں محمدعلی کی قبر پہ درود و سلام کے نزرانے پیش کیے جاتے ھیں
