ھم تین اور جشن عیدمیلادالنبی
طالب ڪڇي
کزشتہ ھفتہ پورے ملک میں جشن عیدمیلادالنبی بڑی دھوم دھام سے منایاگیا جو ھر سال منایا جاتا ھے آج ابراھیم حیدری میں بھی ایک بہت بڑی ریلی گزر رھی تھی میں ایک کونے میں کھڑا یہ سارا نظارا دیکھ رھا تھا پر ریلی بہت بڑی تھی جس میں ھزاروں کی تعدات میں بچے جوان بزرگ سب جنکے ھاتھوں میں جھنڈیا گاڑیوں میں نعت مصطفے کی آوز گونج رھی تھی گو کہ میں اب میلاد کے جلوس میں بہت کم ھی جاتا ھوں پر ابراھیم حیدری کے میلاد کے جلوس کو دیکھتا ضرور ھوں کیوں کہ آج پورے ابراھیم حیدری میں جس شان سے جشن میلاد منایا جاتا ھے اسکے بانی ھم تین دوست ھیں ورنہ ابراھیم حیدری میں کبھی جشن میلادالنبی کبھی بھی نھیں منایا گیا ھاں البطہ گھروں میں نظروں نیاز ھوتی رھتی تھی پر بقایدہ دھوم دھام سے جلسے یا جلوس نھیں نکالے جاتے تھے یہ 1979کی بات ھے جب اس کا آغاز ھم تین دوستوں نے 1978میں ھم کیماڑی سے ھجرت کرکے ابراھیم حیدری آگیے تھے اسکی وجہ یہ تھی کہ زولفقار علی بھٹو کے خلاف جب تحریک چلی قومی اتحاد کی اس وقت جس علاقہ میں ھم رھتے تھے وہ محلہ غیر محفوظ تھا اور ھم سب پیپزپارٹی کو فالو کرتے تھے ھمارے محلے کے اردگرد تین طرف سے سمندر تھا اور ھمارے راستہ جو تھا وہ ایک ھی تھا وہ راستہ قومی اتحاد والوں سے گزرتا تھا وہ مزھب کے نام پہ تحریک چلی تھی اس کے حساب سے وہ سب پکے مسلمان تھے پر پیپز پارٹی کو فالوں کرنے والے لیبرل سکولر یاشوشلسٹ تھے انکی نظر میں وہ سب بے دین تھے اسی وجہ سے بڑے پیمانے پہ ھنگامے پھوٹے تھے اسی وجہ سے ھمارے محلے کے کچھ خاندان ابراھیم حیدری میں آگیے دیکھا دیکھی ھم بھی ابراھیم حیدری میں آگیے اس وقت ابراھیم حیدری کی ابادی بہت کم تھی کراچی کے پرامن علاقوں میں انکا شمار ھوتا تھا عمرکالونی میں بھی چند گھر تھے واٹرپمپ لیبرکالونی شہنشاہ چوک غریب نوازشاہ پاڑہ یا بے نظر چوک کا وجود بھی نا تھا ویرانی تھی سب یہاں کے قدیمی لوگ جن میں سندھی ماھیگر بلوچ برادری اور کچھی برادری جو بلوچ محلے کے پاس ھیں وھی تھے باقی بھی سندھی برادری کے دیگر برادیاں بھی تھی جیسے خاصخیلی وغیرہ ھاں تو بات ھورھی تھی جشن میلاد کے آغاز کا ھم تو آگیے تھے اسکے بعد ھمارے محلے کے دیگر خاندان بھی آنا شروع ھوگیے جس میں حاجی زکریا صاحب انکے گھر کا کام ھورھاتھا وہ اور انکے والد محترم جناب حاجی عیسی صاحب مرحوم بہت اچھے انسان تھے آج جو ابراھیم حیدری جبل پاڑہ گلی نمبر 5کی عالی شان مسجد ھے نورانی جمع مسجد اسکی بنیاد اور اسکی تعمرات کا کام اس نے شروع کیا تھا بعد ھمارے دیگر معززین نے بھی بھرپور حصہ لیا چونکہ میں حاجی زکریا کی لانچ میں فشنگ کے لیے جاتا تھا تو حاجی زکریا بھی اس لانچ میں جاتا تھا چونکہ ھم دونوں بہت گہرے دوست بھی تھے اس وقت ھم خیال بھی تھے اور لانچ میں نسیم حجازی کے ناول لے جاتے تھے مطالہ کے لیے اسی وجہ سے ھم دونوں نے ایک ساتھ نماز پڑنی شروع کی اور ھر وقت ساتھ بھی رھتے تھے نورانی جامع مسجد جبل پاڑہ بن چکی تھی مگر ابھی انکے دووازے یا کھڑکیا کچھ بھی نہ تھی مسجد کی چند دوکانیں تھی جس میں ایک درزی کی دوکان تھی جس میں ایک بہت پڑے لکھے اچھے انسان انور شاہ بخاری تھے انکا بیٹا احمد شاہ بخاری جو سندھ کا بہترین کاتب تھا جب قرآن اودیگر کتابوں کی کتابت اسی دوکان میں بیٹھ کر کرتے رھتے تھے حالاکہ انور شاہ دیوبند مکتباے فکر سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ ھمیشہ ھمیں بہت اچھے مشورے دیتے رھتے تھے اسے یہ پتا تھا کہ یہ بریلوی ھیں تو وہ اسی حساب سے رھنمای کرتے تھے بارحال ھم تین دوست جس میں حاجی زکریا صاحب جو ماشااللہ بہت اچھے مقرر بھی ھیں اور مزھبی ماملات میں انکا وصی مطالہ بھی ھے دوسرے ھمارے دوست محتر طالب جام صاحب جو عمرکالونی میں رھتے ھیں اللہ اسے صحت دے اور تیسرا میں طالب کچھی ناچیز ھم تینوں دوست نماز پڑ کر انور شاہ کی دوکان پہ بیٹھا کرتے اورانور شاہ سے کچیڑی کرتے رھتے ایک دن ھم تین دوستوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ھم اس سال ابراھیم حیدری میں میلادالنبی کا جلسہ کریں انور شاہ نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ھے مجھسے آپ جو کام لو میں حاضر ھوں اور انور شاہ نے کہا آپ مجھے سفید کپڑا لیکر دینا میں بینر پہ لکھای کردونگا میں نے ماضی میں یہ کام کیا ھے ایک جلسے کے لیے اور ایک مسجد کے گیٹ پہ لگانے کے لیے اور اس طرح ھم دوستوں نے اس پہ کام شروع کر دیا اور ابراھیم حیدری کے ھمارے پرانے رھنے والے بزرگ تھے ان سے ملاقاتیں شروع کی اور انہیں دعوت بھی دی جس میں صابق ھمارے بزرگ کونسلر حاجی احمد کچھی صاحب اور ایک حاجی عیسی لکھن مرحوم سے ملنے گیے اور انہیں کہا کہ ھم عیدمیلادالنبی کا جلسہ کر رھے ھیں یہ بات حاجی زکریا نے کی جیسے ھمارے بزرگ نے جلسہ کا نام سنا تو کہا آپ لوگوں کا دماغ خراب ھو گیا ھے ابراھیم حیدری میں جلسہ نھیں بھای نھیں ھمارے جاموٹ بہت ناراض ھونگے وہ جلسہ کرنے کی تو کسی صورت اجازت نھیں دینگے حاجی زکریا نے اپنی بات جاری کرتے ھوے کہا نھیں حاجی صاحب ھم کسی کے خلاف جلسہ تو نھیں کر رھے ھیں بس رسول کی شان میں جلسہ ھے حاجی صاحب نے ھم سب کو سمجھاتے ھوے کہا وہ آپ کرے پر جلسہ نہ کریں اصل بات یہ تھی یہ ھمارے بزرگ ابراھیم حیدری کے قریمی لوگ تھے اور اس وقت جاموٹ بہت پاور فل تھے ایک گوٹھ تھا ابراھیم حیدری اور فیصلے میں گوٹھ کے بزرگ سب کی مشاوت سے فیصلے ھوتے تھے اور یہاں کوی اتنی سیاسی حل چل بھی نھیں تھی سب پیپز پارٹی کو سپوٹ کرتے تھے حالا کہ جاموٹ کیسے منا کرینگے میلاد منانے کے لیے ایسی بات نھیں تھی بار حال ھم دوستوں کے پاس اتنے وسایل نھیں تھے ھم نے چھوٹے پوسٹر بناے اور اسکو ابراھیم حیدری میں میں اور حاجی زکریا اور میری پھوپی کا بیٹا عباس نے دیوروں پہ پوسٹر لگانے لگے تو ایسا پہلی بار ھورھاتھا تو لوگ جہاں ھم پوسٹر لگاتے لوگ کھڑے ھوکر پڑتے جلسہ کی صدارت کے لیے کیماڑی کی میانہ کچھی مسجد کے خطیب حاجی فقیرمحمد کو صدارتی تقریر اور نعت پڑنے کے لیے ھمارے دوست یوسف معلم جو خد ایک ڈرامہ کے آرٹس اور درزی کا کام کرتے تھے اسے بلایا مطلب ابراھیم حیدری میں اس وقت ایک بھی نعت پڑنے والا نہ تھا جلسہ میں جب حاجی زکریا کے والد مرحوم حاجی عیسی صاحب کو پتا چلا کہ یہ اتنا بڑا کام کر رھے ھیں تو پیسے یہ کہا سے لاینگے حاجی عیسی مرحوم مجھے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے اور میں انکے گھر کا ایک فرد یا فیملی میمبر تھا اس نے مجھے بلاکر کہا جلسہ کی جتنی نیاز ھوگی وہ میں خریدوں گا آپ بہت اچھا کام کر رھے ھو تم میرے بیٹے حاجی زکریا کو بتا دینا کتنی نیاز کی ضرورت ھے یہ بات وہ اپنے بیٹے حاجی زکریا سے کہے سکتے تھے پر مجھے بھی اپنے بیٹوں کی طرح ھی سمجھتے تھے اب ھمارے ساتھ ھمارے دوست بھی شامل ھوگیے اور جلسہ دوبجے دوپہر نورانی جامع مسجد جبل پاڑہ اس وقت عمرکالونی تھا ابراھیم حیدری میں پہلا عیدمیلادالنبی کا جلسہ ھوا اور حاجی زکریا نے اپنی زندگی کی پہلی تقریر کی اسکے بعد دوسرے سال کچھی محلے میں اور بعد میں شہر کے مشہور علماے کرام کو میلادالنبی کے جلسے میں لاتے رھے یہ زمیداری حاجی زکریا بھی چھوڑ دی تھی جو علماے کرام ابراھیم حیدری تشریف لاے ان میں خطیب پاکستان مولانا محمدشفیع اوکاڑوی۔ علامہ شاہ ترابلحق قادری۔ رضا مصطفع عظمی خطیب بولڈن مارکیٹ میمن مسجد محفوظ شاہ صاحب اور دیگر علماے کرام تشریف لاتے رھے اسکے بعد گوٹھ ابراھیم حیدری میں ایک چاڑن برادری اور باتاڑی برادری کی طرف سے میلاد کے جلسے شروع کیے گیے جس میں سندھ سے علماے کرام آتے تھے اور اس طرح جشن عیدمیلادالنبی کے جلسے شروع ھوگیے پھر ریلی بھی نکلنے لگی مگر وہ صرف کچھی برادری کی جانب سے ریلی نکلتی تھی جس میں دس باڑہ گاڑیاں ھوتی تھی چونکہ میں نظریاتی توڑ پہ کچھ بدل گیا ترقی پسند کتابیں پڑنے سے مجھ میں بہت تبدلی آی پر حضور سے عشق اور انکا احترام اور میں ھر میلاد کے جلسے میں اکیلا ایم اے جیناح روڈ پہ ھر سال ضرور جاتا دس سال کی عمر سے میں روزہ رکھتا ھوں اور آج میری عمر ستر کے قریب ھے ایک روزہ بھی قضہ نھیں کیا ھاں کبھی دل کرتا ھے تو نماز پرتا ھوں دل نھیں کرتا تو نھیں پڑتا میں دکھاوے کی نماز نھیں پڑ سکتا کیوں کہ نماز اللہ اور اسکے بندے کا ماملہ ھے ھوسکتا ھے یہ مجھ میں خامی ھو بارحال اب میں جب کونسلر تھا 201 میں جب ٹاون ناظم عاشق جاموٹ. تھے اسکے بعد جان عالم جاموٹ ٹاون ناظم بنے بن قاسم ٹاون کےمیں اکسر یونین کونسل میں ھوتا تھا اس وقت کی خواتین کونسلر حاجرہ شیخ اکسر مجھسے عورتوں کے میلاد پہ بات کرتی رھتی اور مجھے کہتی طالب بھا کرن جاموٹ کی بہت خواھش ھے کہ خواتین میں عیدمیلادالنبی کا بھر پور جلسہ کیا جاے اور کرن جاموٹ سے میں نے کہا ھے اس سلسلے میں طالب ھماری بہت مدد کر سکتے ھیں میں نے حاجرہ شیخ کو کہا کہ آپ جب بولو میں حاضر ھوں اور اس نے میرا نمبر ادی کرن جاموٹ کو دیا اور مجھے بھی ادی کرن جاموٹ کا نمبر دیا اس طرح کرن ادی سے میری بات ھوی اور میں نے کہا ادی میں حاضر ھوں اور اس طرح جشن عیدملادالنبی کی خواتین جلسہ پہ کام زور شور سے شروع کیا گیا مورڑوھال پہ ٹنٹ لگنے شروع ھوگیے جو عبدل ڈیکوریشن والے تھے جس میں عبدل خد رضوان کاشف کچھی اور عبدل ڈیکوریشن والوں کے بچوں نے پوری تیاری کی اور خاص کر عبدل ڈیکوریش والا اور ایک عبدلغفور جنرل اسٹور والا جو جاموٹ محلے میں انکا جنرل اسٹور ھے اس نے بہت سپوٹ کی اسکی وجہ یہ تھی کہ ھماری کچھی برادری کی بچیاں دعوت اسلامی کے پروگرموں میں جایا کرتی تھی اور محلوں میں محفل نعت میں نعتیں شریف پڑا کرتی تھی جس میں عمر کالونی کی اور کچھی پاڑہ کی بچیوں کو میلاد کی دعوت دی گیی اور بچیوں نے شرکت کا یقین دلایا بارحال شام کو ساری تیاری ھوچکی تھی جاموٹ فیملی کی کافی خواتین جس میں ایم پی محمود عالم کی والدہ بھی موجود تھی اور وہ سب کام سے مطمین تھیں پر ایک خاتون نے کہا طالب بھا یہ جگہ کم پڑ جایگی میں نے ادی کرن جاموٹ کو کہا ادی اس میں تین ھزار خواتین آجاینگی تو دوسری جانب سے خواتین کہا انشااللہ بہت ھماری لیزیز آینگی پھر مجھے یقین ھوگیا کہ ان خواتین نے بہت محنت کی ھے میں ایک بات ضرور بتاتا چلو میرا یہ عمل کچھ میرے دوستوں کو اچھا نھیں لگ رھا تھا دوسری بات جاموٹوں کی جانب سے سواے میرے اس جگہ آنے کی سخت منا تھی کہ اس جگہ ھمارے راج کی طرف سے کوی بھی نہ جاے صرف یہ ساری دیکھ بال طالب کچھی کر رھا ھے اور کسی کی مداخلت برداش نھیں اور حقیقت میں ایسا ھی ھوا جب پروگرام شروع ھوا تو اتنی خواتین آی جو کہی تل درنے کی جگہ نہ تھی میں خد گیٹ کے باھر تھا جب پینے کے پانی میں برف کا مسلہ ھوا تو میں اندر نہ جا سکا اور خواتین خد یہ سارا کام کرتی رھی میری پھپی جناں حاجیانی کو کرن جاموٹ نے ساری زمیدری دی تھی اور میں بہت خوش تھا کہ ابراھیم حیدری کی تاریخ میں خواتین کا پہلی بار اتنا بڑا جشن عیدمیلادالنبی قایم ھونے جارھا تھا جس میں مجھ گناہ گار سے میرا رب یہ کام لے رھا تھا جب جلسہ ختم ھوا تو جتنے جنڈے لگے ھوے تھے وہ ساری گوٹ کی خواتین لے گیی اور گوٹ میں پہلی بار اپنے گھروں پہ یہ میلاد کی جھنڈیاں لگای گیی جب پروگرام ختم ھوگیا ساری خواتین جا چکی تھی سواے جاموٹ فیملی کے جیسے میں انکے قریب گیا سب نے مجھے مبارک باد دی میں نے بھی ادی کرن جاموٹ اور انکی پوری ٹیم کو مبارک۔باد پیش کیا اس طرح یہ حقیقت ھے جاموٹ فیملی کے شامل ھونے کے بعد پھر گوٹھ کے دیگر گھروں میں میلاد کی محفلیں ھونے لگی اور پھر مل پاڑے سے گوٹھ کی سب سے بڑی ریلی کا آغاز ھوا جس میں ابراھیم حیدری کی سب برادریاں اس میں بھر پور شامل ھوتے ھیں جسکی پہلے ریلی کی قیادت مرحوم حاجی شفیع جاموٹ صاحب کرتے تھے اور سردار سوحل موٹ اب کرتے ھیں اسے میں نے ریلی میں گزرتے دیکھا ھء مجھے عبدلقادر بھای جان نے کہا طالب چاچا پوری ریلی کا خرچہ گاڑیوں کا تیل اور آخر میں نظرو نیاز لنگر وغیرہ حاجی ابراھیم تیل والا کرتے ھیں اور مل برادری کی جانب سے کشیوں کے ناخدا ملکر بہت بڑے لنگر کا اتمام کرتے ھیں جس میں پچاس سے زیادہ بریانی کی دیگیں پکای جاتی ھیں ریلی کے اختتام پر سب کو لنگر کھلایا جاتا ھے نیک کام میں جتنے بھی حصہ دیتے ھیں یہ حضور کی محبت ھے پر میں ایک بات میری بہین ادی کرن جاموٹ سے کہوں گا ادی کرن اگلے سال اللہ آپکو زندگی دے تو پھر ایک بار اسی جزبے کے ساتھ اس سے دوگنہ جشن میلادالنبی آپکی قیادت میں ھو اور خوب ھوگا انشااللہ.اور ھم سب ھماری برادی سب ملکر دھوم دھام سے مناینگے دوستوں یہ ایک جشن عیدمیلادالنبی کی تاریخ ھے اب جو نوجوان ھیں ماشااللہ جو پیدا بھی نھیں ھوے تھے اسے کیا پتہ کہ ابراھیم حیدری میں میلاد کے جلسے اور ریلیاں کیسے شروع ھوی پر ظاھر ھے جب انکے بڑوں نے جس کام کا آغاز کیا تو اسکی کام کو ھماری نیی نسل بھی بڑی دھوم دھام سے جاری رکھیں ھوے ھیں حاجی زکریا صاحب بھی اب بزرگ ھوگیے ھیں طالب جام بھی بیمار رھتے ھیں اور میں طالب کچھی بھی موت کے بہت قریب ھوتا جارھا ھوں ھمارے نظریات بدلتے رھتے ھیں پر حضور کی محبت کی کم سے کم کسی سے سند لینے کی ضرورت نھیں بس میری میرے رب سے صرف ایک التجہ ھے اور موت برحق ھے یا اللہ اپنے حضور کے صدقے میں صرف آپ سے میری التجہ ھے بس صبح ھوی بتا چلا پنچھی اوڑ گیا بس ھماری موت آسان کر میں نے زندگی سے یہی سیکھا کسی کو تکلیف نہ دو ھمارے نبی کا بھی یہی فرمان ھے انسان سے پیار انسانیت سے پیار تمام مزھبوں کا احترام اللہ ان سب نواجوان بزرگ بچے جو اس میلاد کو جاری رکھے ھوے ھیں جس مشن کا ھم دوستوں نے آغاز کیا تھا آج بڑی دھوم دھام سے جاری ھے۔ کشتی نوح میں نارے نمرود میں۔ بتن ماھی میں یونس کی فریاد پر۔ آپ کا نام نامی اے صلے اللہ ھرجگ ھر مصیبت پہ کام آگیا
