ماھیگر تحریک اور قبرستان
طالب ڪڇي
سچل ھال ابراھیم حیدری جہاں پہ ماھیگروں کی تنظیم پاکستان فشرفوک فورم کی مرکزی ھڈ آفیس تھی سچل ھال پہ چشمعہ گوٹھ کے معززین جس میں ابوبکر خاصخیلی صالح محمد خاخصخلی۔ احمد وڈیرو ۔لدو شاہ اور مرحوم ماسٹر قاسم اور انکے دیگر ساتھیوں کے ساتھ فشرفوک فورم کے چیرمین محمدعلی شاہ اور مجید موٹانی یوسف کڈانی حاجی تاجو اور میں طالب کچھی اور کافی تعدات میں فشرفوک فورم کے ورکر موجود تھے کچھ ھی دیر کے بعد پیپز پارٹی کے صوبای اسمبلی کے میمبر محترم حاجی مظفرعلی شجرہ صاحب اپنے کچھ ورکروں کے ساتھ تشریف لاے اصل میں چشمعہ گوٹھ کا قدیمی قبرستان کا مسلہ تھا ماھیگروں کے اس قدیمی قبرستان پہ ھمارے سیکورٹی ادارے میت تک دفنانے نھیں دیتے تھے آس پاس کی خالی زمین پہ تو اس نے قبضہ کر لیا پر جس قبرستان میں جن کے اباو اجداد کی قبریں تھی ظلم کی انتہاں کہ اس میں کسی میت کو دفنانے کی اجازت نھیں تھی چشمعہ گوٹھ کے سینر ساتھی مرحوم ماسٹر قاسم نے حاجی مظفرعلی شجرہ سے مخاطب ھوے اور کہا حاجی صاحب ھم نے اس مسلے کے لیے تمام ھمارے معززین کے پاس گیے جت برادری جاموٹ صاحب عبدلحکیم بلوچ صاحب سب نے یہ کہے کر انکار کردیا کہ ھم حکومتی سیکورٹی اور اس طاقت ور ادارے سے ٹکر لینے کی معزرت کی ھے لہازہ آپ ھمارے ایم پی ھو اس لیے ھم آپ سے درخوست کرتے ھیں آپ ھماری رھنمای کریں یہ سنتے ھی حاجی مظفر علی شجرہ صاحب نے صاف انکار کردیا کہ میں اس ادارے سے نھیں لڑسکتا باقی جو مدد چاھیے میں حاضر ھوں چشمعہ گوٹھ کے معززین کے چہرے پہ مایوسی صاف نظر آرھی تھی پر فشرفوک کے چیرمین محمدعلی شاہ مرحوم اللہ انکی مغفرت کرے فوری چشمعہ گوٹھ کے معززین سے کہا کہ کوی آپ کا ساتھ دیں یا نہ دیں فشرفوک آپ کے ساتھ ھے اور آپ دوستوں کے شانہ با شانہ ھر مشکل وقت کھڑی رھے گی یہ ایک تلخ حقیقت ھے اور یہ ایک تاریخ بھی ھے اور میں تاریخی بدیانتی نھیں کرسکتا اس میں کوی شک کی بات نھیں محمدعلی شاہ میں بھی خامیاں ھونگی اور ھر انسان میں خامیاں خوبیاں ھوتی ھیں پر اس میں فیصلہ لینے کی قوت تھی اس کے پاس اچھی ٹیم تھی انکے ساتھی تھے کوی بھی انسان اکیلا کچھ نھیں پر اسکی مظبوت تنظیم پہ بھروسہ تھا محمدعلی شاہ دلیر تھا حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرنے کی قوت تھی ان میں کہنے کا مقصد یہ ھے کہ چشمہ گوٹھ کے دوستوں نے یہ کہا کہ ھماری کوی مدد نھیں کر رھا ھم سب کے پاس گیے ھیں اور سب نے صاف انکار کیا ھے بارحال اب ھر دوسرے دن چشمعہ گوٹھ کے دوست فشرفوک آفیس آتے اور محمدعلی شاہ اور دیگر ساتھیوں سے میٹنگ ھوتی رھتی تھی ایک دن میت ھوگیی اور حکومتی سیکورٹی ادارے میت کو دفنا نے سے صاف انکار کر دیا سچل ھال فشرفوک آفیس پہ کال آی فشرفوک کے میڈیا کوڈینیٹر سامی میمن کو کہ ھمیں قبرستان میں میت دفنانے نھیں دیا جارھا سامی میمن کمال شاہ اور بابو صدیق جو فشرفوک میڈیا سے وابستہ تھے اور سر سامی میمن نے مجھے کہا طالب جلدی چلیں ھم چشمہ گوٹھ جارھے ھیں گاڑی کوی 15منٹ میں چشمعہ گوٹھ قبرستان پونچ گیی وھاں میت کے ساتھ ھزاروں لوگ کھڑے تھے اور سیکورٹی والے چار گاڑیوں میں بندوق تھامے میت کو دفنانے سے صاف انکار یہ منظر عجیب منظر تھا یہ حقیقت ھے کہ اگر سامی میمن نہ ھوتے تو ھم میں سے تو کسی کی ھمت نھیں تھی جو ان اداروں سے بات کریں ھمارے کیمرہ مین بابو صدیق کو دور روک لیا سامی میمن آگے آگے میں اور کمال شاہ انکے بیچھے کیوں کہ کمال شاہ کو فوٹو گرافی کرنی تھی وہ چالاک بھی ھے تو اس نے اپنا کام جاری رکھا سامی میمن نے کوی میجر تھا اس سے سلام کیا اور ان سے ھاتھ ملایا میں نے بھی ھاتھ ملایا اب ھمارے چاروں طرف بندوقیں تانیں کھڑے سیکورٹی انجسی والے چشمعہ گوٹھ کے ماسٹر قاسم بھی ساتھ تھے باقی ھجوم کو دور روکے رکھا تھا میجر کو سامی میمن نے اپنا اور پاکستان فشرفوک فورم کا تعریف کروایا اور میجر کو کہا کہ فشرفوک فورم ماھیگروں کی عالمی تنظیم ھے اور ھم پر امن جہدوجہد پہ یقین رکھتے ھیں اور کہا سر یہ کیا ھورھا ھے تو میجر نے سامی میمن کی طرف دیکھتے ھوے کہا ھم میت کسی صورت دفنانے نھیں دینگے سامی میمن نے کہا سر یہ ھم سے بڑی زیادتی ھے ھم اس درتی کے وارث ھیں اور ھم اپنی قبرستان جو دو سو سال قدیمی ھے اس میں ھم میت بھی نھیں دفنا سکتے بہت افسوس ھے سر جواب میں میجر نے کہا آپ کہی اور جگہ پہ میت دفنایں سامی میمن نے کہا کون ھمیں دفنانے دینگے میت اپنی قبرستان میں کیا ھم اپنی میت کو سمندر میں پھینک دیں میجر نے کسی عالی آفیسر کو کال کی کہ پاکستان فشرفوک فورم والے آے ھیں میرے خیال میں اس میجر کو یہ سمجھایا گیا کہ ان سے زیادہ نہ الجھیں شاھد اسے فشرفوک کی جہدو جہد کا علم تھا پر اسے یہ بتایا گیا تھا کہ کوشش کریں میت کو نہ دفنانے دیا جاے ھمیں دیکھ کر عوام پر جوش تھی سیکورٹی کی یہ ضد کہ ھم میت کو کسی صورت دفنانے نھیں دینگے اور ھماری یہ ضد کہ چاے کچھ بھی ھوجاے پر میت ھم اسی قبرستان میں دفاینگے ھم سب قبر کے پاس میت کے ساتھ کھڑے تھے اور لوگ میت کو دفنانے کی تیاری کر رھے تھے اور سیکورٹی والے بندوق تانے کھڑے تھے کچھ بھی ھوسکتا تھا پر ھجوم نے نارے تکبیر اللہ و اکبر لگا کر میت کو جلدی جلدی قبر میں اتار دیا اور ھجوم نے تالیاں بجایں سیکورٹی والے دیکھتے رھے گیے ظاھر ھے وہ بھی انسان ھیں پر انکی ڈیوٹی ھے وہ اپنے افسران کے حکم کے محتاج ھیں بار حال یہ مرحلہ تو ھوگیا صبح کے تمام اخباروں میں یہ خبریں لگی ھوی تھی کہ چشمعہ گوٹھ میں ماھیگروں کے قدیمی قبرستان میں سیکورٹی اداروں نے میت دفنانے سے انکار کردیا لوگوں نے زبردستی میت دفنا دی بعد میں حکومتی اداروں نے محمدعلی شاہ سے رابطہ کیا اور ملاقات کا ٹایم مانگا وہ بھی عجیب بندہ تھا وہ اکیلا انکی ھڈ آفیس چلا گیا مزاکرات کے لیے واپس آکر سامی میمن کو بتایا کہ ان سے یہ یہ باتیں ھوی سامی میمن نے شاہ صاحب کو کہا آپ بھی کمال کے آدمی ھو آپ کو اکیلے نھیں جانا چاھیے انکا کوی بھروسہ نھیں محمدعلی شاہ نے بتایا وہ 8 ایکڑ قبرستان کے لیے دینے کو تیار ھیں باقی جو خالی زمین ھے جو دو سو ایکڑ سے زیادہ ھے وہ کہتے ھیں ھماری ھے ھم چشمعہ گوٹھ کے دوستوں کے آگے یہ بات رکھے گے پر میرے خیال میں 15 دن کے بعد پھر مرحوم ماسٹر قاسم کا کوی عزیز کا انتقال ھو گیا وہ لوگ صبح سویرے قبر بنای تو پتھر نکل آیا پھر دوسری بنای اس میں بھی بتھر نکل آیا اب تیسری بنا ھی رھے تھے تو سیکورٹی والے بڑی تعدات میں آگیے اور سختی سے منا کیا کیوں کہ ھمیں بھی میت میں جانا تھا جب ھم وھاں پونچے جس میں سامی میمن کمال شاہ اور میں طالب کچھی تھے سامی میمن نے دیکھا کہ آج کی صورتحال پہلے سے مختلف ھے کوی بھی نقصان ھوسکتا ھے مزید سیکورٹی کے سپای بڑی تعد میں آگیےتھے ھم نے جنازے کے ساتھ خواتین کو بھی شامل کیا اور اس طرح قبرستان پونچے اور میت قبر کی پاس رکھی اب میت خواتین کے حوالے تھی یہ سامی میمن اور دوستوں کی حکمت عملی تھی سامی میمن نے سیکورٹی والوں سے بات کی پر وہ راضی نہ ھوے پر قبر بھی تیار نہ تھی بس صرف دو فٹ گہری ھوی تھی باتوں باتوں میں سیکورٹی والوں نے قبر بنانے والوں سے ٹیکم اور بیلچا چھین لیا لوگ جزبات میں آگیے اور خواتین میت کو قبر کے قریب لے آی اور نہ مکمل قبر میں وھا موجود دوستوں نے میت کو قبر میں جلدی اتار کر میت پر مٹی ڈالنا شروع کردیا اور کہنے لگے اب اللہ جانے اور میت ھماری مجبوری ھے اور یہ دوسرا میت بھی زبردستی دفنانے پر مجبور ھوے سیکورٹی ایلکار بندوق تھامے دیکھتے ھی رھے گیے ان دونوں واقیات میں سامی میمن کمال شاہ اور میں طالب کچھی اپنے تنظیم کی بھرپور نمایندگی کی باقی چشمشہ گوٹھ کے تو سارے ساتھی غلام فرید بلوچ ابوبکر ماسٹر قاسم لدو شاہ احمد وڈیرو شبیر خاصخیلی جاوید خاصخیلی انکے والد صالح محمد بہت سے ساتھی موجود تھے اس قبرستان میں ایسی بھی قبریں تھی جن پہ 132 سال پرانی تختیاں بھی لگی ھوی تھی اور ایک پرانی مسجد بھی تھی جس پہ ان لوگوں نے ٹرکٹر گما کر شھید کیا گیا تھا بار حال اب نہ انہوں نے دیوار قایم کی نہ ایک بلاک لگایا فشرفوک سے بات چیت بھی جاری رکھی ھوی تھی پھر 6 ماہ بعد وہ دیوار لگانی شروع کر دی ماسٹر قاسم اور انکے ساتھیوں نے آکر سارا ماجرا سنایا فشرفوک آفیس آکر اس وقت کوی شام کے 4 بج رھے تھے فشرفوک کے سارے ساتھی موجود تھے مجید موٹانی یوسف کڈانی اور میں بات چیت جاری تھی محمدعلی شاہ نے کہا کہ آپ لوگ روکیں ورنہ اگر دیوار قایم ھوگیی تو ھم کچھ نھیں کر سکے گے آپ لوگ جاے اور مسجدوں میں علان کروایں پورے علاقہ کے لوگوں کو اکٹھا کریں اتجاج کریں اور کوی راستے نھیں وہ وفد جلد چشمعہ گوٹھ کے قدیمی ماھیگروں کے ساتھ ساتھ بنگالی بختون جو اس علاقے سے وابستہ تھے سب وھاں جمع ھوگیے اور دیوار کی تعمیر روکنے کو کہا اور افراتفری ھوگیی سیکورٹی والوں نے فارینگ کردی ایک خواتین اور ایک بچہ جو جاوید خاصخلی کا بھای محبوب تھا وہ زخمی ھوگیے اب یہ مشااللہ بچہ جوان ھے اور بہترین سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رھتا ھے محمدعلی شاہ کو صورتحال سے آغا کیا تو شاہ صاحب نے مجھے کہا طالب جلدی چلو اور ھم جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھے چشمعہ گوٹھ کی جانب روانہ بیچھے مجید موٹانی اور یوسف کڈانی اور دگر دوست بھی چشمعہ گوٹھ کی جانب روانہ ھوگیے جب ھم وھاں پونچے تو ھمیں دیکھ کر پاکستان فشرفوک زندہ باد ماھیگر زندہ باد کے نارے ھجوم نے لگاے اور محمدعلی شاہ کے اور ھمارے گرد جمع ھوگیے کوی 2000 ھزار کے قریب لوگ تھے جس میں خواتین بھی شامل تھی جو دیورار سیکورٹی والوں نے تعمر کی تھی اسی وقت وہ دیوار ھجوم نے گرادی سیکورٹی والے عوامی ریکشن کو دیکھ کر اپنی گاڑی وھی چھوڑ کے بھاگ جانے میں ھی آفیت سمجھی تھانہ ابراھیم حیدری کے ایچ اے او اور اسکی پوری ٹیم بھی موجود تھی محمدعلی شاہ نے ایچ اے او کو کہا آپ نے دیکھا اپنی آنکھوں سے کس طرح فایرینگ کی ھے خواتین پہ اور ایک بچہ بھی زخمی ھوا ھے بارحال ھم سب تھانہ ابراھیم حیدری آے اور سیکورٹی ادرے پہ پرچہ کٹایا سیکورٹی ادارے نے فشرفوک کے دوستوں پہ پرچہ کٹایا اور فشرفوک فورم نے باقاعدہ کیس داخل کردیا ان پر کچھ وقت کے بعد کیس بھی فشرفوک کے حق میں ھوا پر یہ حقیقت ھے اتنا کچھ ھونے کے باوجود چشمعہ گوٹھ کے کسی ایک بندے کو نھیں اوٹھایا اور نہ ھی ایک بلاک لگایا دیوار پر مجھے اچھی طرح یاد ھے جب عورتوں اور بچوں پہ فایرینگ کے خلاف ھرتال کا علان کیا ابراھیم حیدری میں تو فشرفوک کی ھرتال کو ناکام بنانے کی ھر ممکن کوشش کی گیی میں صبح سویرے جب فشرفوک آفیس سچل ھال جارھا تھا تو بھاری پولیس کی گاڑیاں سچل ھال کے پاس کھڑی تھی چونکہ ھال کی چابیاں میرے پاس تھی میں نے ھال پہ جاکر مجید موٹانی اور یوسف کڈانی کو کال کر کے ساری صورتحال سے آغا کیا کچھ دیر کے بعد مجید موٹانی اور یوسف کڈانی بھی آگیے کمال شاہ اور دیگر ساتھی پونچنا شروع ھوگیے چونکہ فشرفوک فورم کی مرکزی آفیس بلوچ کا لونی میں شفٹ ھوچکی تھی میں استاد یوسف روقیہ عثمان سامی میمن کمال شاہ اور ایوب شان ابراھیم حیدری سچل ھال پہ تھے ھم سارے دوست سچل ھال پہ تھے اور نیچے رینجرس کی گاڑیاں کھڑی تھی میں مجید موٹانی یوسف کڈانی ایوب شان اور کمال شاہ نیچے گیے اور رینجرس والوں سے بات کی ابھی ھم بات کر ھی رھے تھے کہ سامی میمن کڈانی ھاوس پہ اپنی موٹر سایکل رکھ کر ھماری طرف آرھا تھا جب یہ ماحول دیکھا تو وہ سمجھ گیا کوی گڑبڑ ھے آتے ھی سلام کیا اور رینجرس والے آفسر سے کہا کہ یہ سب کیا ھے ظلم بھی ھم پر اور ھمیں اتجاج کا بھی حق نھیں یہ اتجاج ھمارا جمہوری حق ھے آپ کہا کھڑے ھو یہ فشرفوک کی آفیس ھے یہاں کچھ بھی ھوسکتا ھے رینجرس کے آفسر نے کہا ھم اپنے کسی ساتھی کا انتظار کر رھے ھیں جیسے وہ آتے ھیں ھم یہاں سے چلے جاتے ھیں اور وہ وھاں سے چلے گیے سوال یہ ھے کراچی جو ماھیگروں کا شہر ھے جو سندھ کے قدمی اور بنادی لوگ ھیں وہ اپنی دھرتی پہ اپنے پیاروں کی میت بھی نھیں دفنا سکتے بار حال اسکے بعد جو کافی علاقہ کے لوگوں میں انہیوں نے پھوٹ ڈالدی اور یہ مسلہ وھی کا وھی رھا اب کوی پہاڑ پہ جگہ ھے وہ بھی بہت کم ھے وھی وہ اپنی میت دفناتے ھیں اس تحریک کے دو ساتھی ایک ابوبکر خاصخیلی اور ماسٹر قاسم کے وفات کے بعد یہ تحریک رک گیی اس کے بعد کیی بار وہ لوگ شاہ صاحب کے پاس آے اور شاہ صاحب نے کیی بار وھاں کے لوگوں سے میٹنگ بھی کی پر دوبارہ اس طرح کی بھرپور تحریک نہ ابھر سکی اب یہ حکومتی ادارے وھاں پہ بھینسوں کے باڑے کراے پہ دے رکھے ھیں کیی بار قومی اسمبلی کے ممبر آغارفیع اللہ کے ساتھ چشمعہ گوٹھ کے معززین اور نوجوان جس میں غلام فرید بلوچ شبر خاصخیلی اور جاوید خاصخیلی نے اس جگہ کا وزٹ بھی کروایا اس نے یقین بھی دلایا پر آج تک قبرستان کا مسلہ وھی کا وھی رھا اور اب وہ مکمل تور پہ قبضہ کرچکے ھیں کوی بھی تحریک اس وقت تک کامیاب نھیں ھوسکتی جب تک اس علاقہ کہ لوگ اور تنظیم کے ساتھی بھر پور ساتھ نہ دیں محمدعلی شاہ نے بہت وقت سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا جیے سندھ عوامی تحریک میں کراچی ڈویژن کے صدر رھے سیاسی سماجی کتابوں کا مطالہ کیا اسی طرح سعدبلوچ ایوب شان مصطفع میرانی مجید موٹانی یا دیگر دوستوں نے اپنے جوانی سے بڑاپے تک ایک اپنا تجربہ رکھتے ھیں اور کوی اچانک لیڈر نھیں بن جاتا اور سب کے مشترکہ جہدوجہد کے نتیجہ میں کامیابی ملتی ھے اس میں کوی شک کی بات نھیں فشرفوک فورم کے چیرمین محمدعلی شاہ ایک بہترین لیڈر اور وقت کے مطابق فیصلہ کرنے کی قوت رکھتا تھا پر اسے یہ طاقت تمام دوستوں کی تھی اسے پتا تھا میری پشت پہ پایلر HRCP اور کراچی وحیدرآباد کی پوری سول سوسایٹی ھے وہ جانتا تھا دنیا کی ماھیگروں کی عالمی تنظیم ولڈ پیپزفورم اور میڈیا انکے ساتھ ھے بلکہ میں یہ کہوں کہ خواتین کا مرکزی کردار رھا شروع سے رھا جس میں زبیدہ بروانی بھابی طاھرہ علی شاہ فاطمعہ مجید زولیخہ عثمان روقہ عثمان بلقیس عثمان اور دیگر خواتین کا مرگزی کردار رھا ان میں شھید طاھرہ علی شاہ کاکردار بڑی ایمیت رکھتا ھے کیوں کہ انکے ساتھ خواتین کی اچھی ٹیم تھی کامیابی ایسےنھیں ملتی اس میں پوری ٹیم کا کردار ھوتا ھے اور یہ حقیقت ھے فرد واحد کچھ بھی نھیں آج بھی چشمعہ گوٹھ کے لوگ یہ سوچ رھے ھیں کہ قدرت کی اس درتی پہ جو خدانے تمام انسانوں کی مشترکہ ملکیت ھے اس پہ کب اپنے پیاروں کو دوگز قبر نصیب ھوگی ھم انسان خد کو اشرف المخلوق کہتے ھیں پر بہت ظالم اور حوان بن گیے ھیں
