میری کہانی میری زبانی – قسط نمبر 49

گزری کے ماھیگر یا قیدی
طالب ڪڇي
کلاچی سے کراچی کا سفر اور جب ھم بات کریں کراچی کی تو تاریخ یہ بتاتی ھے کہ کراچی ماھیگروں کی بستی تھی جو آج دنیا کا انٹرنیشنل شہر بن چکا ھے ورنہ میں جب اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتا ھوں تو کراچی بل کل ایک چھوٹا شہر تھا جو کیماڑی سے شروع ھوکر سولجر بازار سے آگے کچھ بھی نہ تھا ٹاور کے پاس ناخدا مسجد آج بھی قایم ھے مچھی میانی مارکیٹ بولڈن مارکیٹ کی میمن مسجد قبرستان پہ تعمیر کی گیی ھے جو ماھیگروں کی بہت سی قبریں یہی پہ موجود ھیں میمن مسجد کراچی کی عالی شان مسجدوں میں شمار ھوتی ھے پر سوچنے کی بات یہ ھے کہ آخر اس مسجد کو قدیمی قبرستان پہ کیوں تعمیر کیا گیا حالہ کہ اس وقت جگہ کا اشو اتنا نہ تھا آج بھی میمن مسجد کے نیچے قبریں موجود ھیں یہ الگ بات ھے کہ پوری مسجد پیلروں پہ تعمیر کی گیی ھے چار فٹ کی چھت قبروں کہ اوپر ھے جب آپ مسجد میں سیریوں سے اوپر چڑتے ھو تو اسی سایٹ پہ کھڑکیا بنی ھوی ھیں جس سے قبریں نظر آتی ھیں لفظ کھارادر اور میٹھادر یہ اصل میں کھارودر اور میٹھودر یہ لفظ سندھی کچھی میمن کجراتی کاٹھیاواڑی واری لفظ ھے اسے اسی نام سے پکارا جاتا تھا کھارو در میٹھودر باد میں کھارادر اور میٹھا در بولاجانے لگا لفظ در دروازے کو کہتے ھیں اس چھوٹی سی کراچی کو ایک دیوار تھی جس سے دو بیل گاڑیاں گزر سکتی تھی اس دیوار کے دونوں جانب دو دروازے تھے جو سمندر کی جانب تھا اسے کھارو در اور جو لیاری ندی کی جانب تھا اسے میٹھودر کہتے تھے بعد کھارادر اور میٹھا در سے پکارا جانے لگا اور آج بھی اسی نام سے پکارا جاتا ھے اصل میں کراچی جسے ھم ماھیگروں کی بستی کہتے ھیں اس کراچی میں ساحل کراچی مبارک ولیج سے ابراھیم حیدری اور ملیر یہی کراچی تھی ھم اسی کراچی میں گزری کی بات کریں تو یہ تین سو سال پرانے لوگ جو ماھیگر ھیں گزری ماھیگروں کا ایک گوٹھ تھا اور یہ ماھیگر ساحل پہ ھی ھمیشہ مچھلی کا شکار کرتے تھے جیسے جیسے کراچی پھیلتا گیا تو خاص کر جو مقامی لوگ تھے انھیں ترقی کے نام پر اسے بیدخل کیا گیا یہی حال گزری کے ماھیگروں کا تھا جب DHA نے گزری کے آس پاس مٹی کی بھرای کرکے عالی شان بنگلے ھوٹلیں اور مرینہ کلب جیسے ادارے بننے شروع ھوے تو گزری کے مقامی ماھیگر پہلے نزدیک مچھلی کا شکار کرنے جاتے تھے اب کنارا مزید دور ھوتا گیا پہلے گزری کے باھر کچھ نہ تھا اب اس کے چاروں طرف بلڈینگیں اور بنگلہ تعمیر ھونے لگے جس جگہ ماھیگر اپنی کشتیاں رکھتے تھے اسے سیکورٹی والے ان کشتیوں کو وھاں رکھنے نھیں دیتے تھے سوچنے کی بات یہ ھے پاکستان بننے سے پہلے یہ لوگ آزاد تھے اور آزادانہ تور پہ مچھلی کا شکار کرتے تھے کیوں کہ یہ مالک تھے ساحل کے سمندر کے مالک ماھیگر ھوتے ھیں پر یہ کیا پاکستان بننے کے بعد یہ مقامی ماھیگر DHA کے قیدی بن گیے نہ انھیں انکی بندر پہ کشتی رکھنے دیتے نہ کنارے پہ شکار کرنے دیتے یہ تمام ماھیگر پاکستان فشرفوک فورم کی آفیس آے اور سارا ماجرا فشرفوک کے چیرمین محمدعلی شاہ اور کراچی ڈویژن کے دوستوں کے آگے رکھی حسین ڈورای نے گزری میں پاکستان فشرفوک فورم کا یونٹ کھولا جس کے صدر حسین ڈورای بنے اور اس کے بعد DHA کے عالی حکام کو لیٹر بیجے گیے جس میں مقامی ماھیگروں سے نا انصاف کے حوالے سے پر اس کا اسر کچھ نہ ھوا اب باقاعدہ تحریک شروع کی گیی جس میں پریس کلب کراچی میں مظاھرے DHA کی آفیس پہ مظاھرے جس میں گزری کے ماھیگروں کی خواتین بچے بھی شامل تھے میڈیا نے بھی خوب سپوٹ کیا کراچی کی سول سوسایٹی و سیاسی سماجی تنظیموں نے بھی بھر پور ساتھ دیا اور حقیقت میں اس وقت کے پیپز پارٹی کے قومی اسمبلی کے میمبر قادر پٹیل نے بھرپور ساتھ دیا اور ویسے بھی جب پیپز پارٹی اقتدار میں نھیں تھی تب بھی ھمارے فشرفوک کے پروگرام ریلی یاجلسوں میں قادر پٹل آیا کرتے تھے بار حال قادر پٹیل نے محمدعلی شاہ کو کال کی کہ میں اسلام آباد میں ھوں آپ آجاے ھم DHa کے عالی افسران سے اس مسلے پر بات کرتے ھیں میری ان سے بات ھوگیی ھے فشرفوک کے چیرمین محمدعلی شاہ نے فشرفوک کراچی کے صدر مجید موٹانی کو اسلام آباد بیجا اس طرح مجید موٹانی اسلام آباد قومی اسمبلی کے میمبر قادر پٹیل کے پاس گیے اور قادر پٹیل اور مجید موٹانی نے DHA کے عالیآفیسر سے ملاقات کی اور مجید موٹانی نے گزری کی تاریخ اور ماھیگروں کے مساحل پہ جب بات کی تو آفیسر جو بہت اچھا اور حقیقت پسند انسان تھا وہ بہت انکی باتوں سے متاثر ھوا اور اس نے کہا کہ یہ تو ماھیگروں کے ساتھ نا انصافی ھے نھیں میں کراچی کے DHA کے افسران سے کہتاھوں کہ گزری کے ماھیگروں کو جیٹی بناکے دی جاے مجید موٹانی واپس آنے کے بعد یہ ساری باتیں شاہ صاحب کے آگے رکھی اور اسکے بعد DHA کے عالی افسران سے میٹنگوں کا سلسلہ شروع کیا گیا شروع کی ایک دو میٹنگ میں محمدعلی شاہ بھی جاتے رھے بعد کراچی کے ساتھی فشرفوک کے میڈیا کوڈینیٹر سامی میمن اکسر ھمارے ساتھ ھوتے اور میرے خیال میں کوی ٹیپو نامی آفسر تھے جن کے پاس یہ سارا سسٹم تھا اور وہ اچھا بندہ تھا پر ایک بات ھے سامی میمن ماھیگروں کی بات افسران سے دل کھول کے رکھتے مجھے یاد ھے ایک بار فشرفوک کے جنرل سیکٹری سعد بلوچ مجید موٹانی ایوب شان سامی میمن اور میں انکی آفیس گیے کیوں کہ کام ڈلے ھورھا تھا تو سامی میمن نے کہا ٹیبو نامی آفسر سے کہا سر ھمارے ماھیگر پریشان ھیں اور اس طرح تو وہ بھوک سے مر جاینگے تو ٹیپو نے ٹینڈر کی کاپی دیکھای کہ آپکی جیٹی کا ٹینڈر ھوگیا ھے اور گیاڑہ کڑور کی جیٹی گزری کے ماھیگروں کو بنا کے دینگے اور اسکی ایک کاپی بھی ھمارے وفد کو دی ھم بہت خوش تھے کہ یہ بہت بڑی کامیابی تھی کچھ دن بعد انکے افسران نے کہا کہ آپ لوگ بھی آجایں اور ھم بھی آتے ھیں جیٹی کہا بننی ھے اس جگہ کا مشاھدہ ھوجایں ھم سب دوست میرے خیال میں ابراھیم حیدری سے حاجی تاجو کی کشتی میں بیٹھ کر سمندری راستے سے گیے DHA افسران وھاں آنے تھے اور سب ملکر وزٹ کرنا تھا کشتی میں حاجی تاجو مجید موٹانی یوسف کڈانی عباس مل والا میں اور وھاں پونچے تو افسران کی کوی میٹنگ تھی اور وہ آنے سے معزرت کی پر ھم نے اور گزری کے ماھیگروں نے جگہ کی نشاھندی کردی تھی ایک دن کال آی فشرفوک آفیس سامی میمن کو کے کھودای والا ڈریجر آگیا ھے آپ دیکھ لیں اور تسلی کرلیں اب کام شروع ھونے کو ھے مجھے یاد ھے سامی میمن ایوب شان حسین ڈورای حنیف اور گزری کے دیگر ساتھی وھاں پونچے تو بہت خوشی ھوی کہ اب امید ھوگیی ھے اس ڈریجر سے زمین کو چیک کیا جارھا تھا کہ اس جگہ جیٹی بن سکتی ھے کہ نھیں بار حال اسکے بعد پھر کیی ماہ انتظار میں نکل گیے ھم سب ساتھی انکی آفیس گیے تو کہا یہ گیا کہ وہ کرنل یاآفیسر چینچ ھوگیا ھے اب معاملات پھر کھٹای میں پڑ گیے بعد ٹیپو جو ایک اچھا آفسر تھا وہ بھی چینچ ھوگیا اس طرح DHA والے اپنے وعیدے سے پھر نے لگے پر شاہ صاحب نے سعدبلوچ اور قرطلین مرزا پہ زمیداری رکھی DHA والوں سے میٹنگ وغیرہ کریں میں اور ھمارے دیگر ساتھی بھی انکے آفیس گیے پر ٹال مٹول کرتے گیےاس وقت کے کراچی کمیشنر شعب صدیقی صاحب سے سعد بلوچ اور قرطلین مرزا نے ملاقات کی اور ساری حقیقت بتای کس طرح گزری کے ماھیگروں کے ساتھ DHA والے ناانصافی کر رھے ھیں کمیشنر کراچی شعب صدیقی صاحب نے تمام اداروں کو جس میں DHA نیوی کوسٹ گارڈ کسٹم پولیس KPT اور میرے خیال میں دیگر سیکورٹی ایدارے اور فشرفوک کو ایک ٹیبل پہ بیٹھایا اور سب کے سامنے گزری کے ماھیگروں کی بات رکھی فشرفوک کے وفد میں سعد بلوچ سامی میمن اور قرطلین مرزا تھی تمام اداروں کو کمیشنر کراچی شعب صدیقی صاحب نے کہا کہ کس ادارے کو اتراض ھے جیٹی بنانے میں تمام اداروں کے افسران نے کہا ھمیں کوی اتراض نھیں تو DHA والے افسران سے مخاطب ھوا اب بات کلیر ھے پھر کیا وجہ ھے بار حال پھر ان سے میٹنگ اور بعد میں تو انکے سیکورٹی والے ساحل کلفٹن پہماھیگروں کو مچھلی کے شکار کا منا کرتے اور ان سے مچھلی لیتے پھر ھمارے ساتھی DHA کے افسران سے ملتے تو پھر کہی جاکر یہ سلسلہ رکتا مجھے اچھی طرح یاد ھے ایک بار ابراھیم حیدری جیلانی محلے کا نوجوان سچل ھال فشرفوک کی آفیس پہ آیا اور ھمیں کہا طالب چاچا ھم اپنی چھوٹی کشتی میں ڈوری سے مچھلی پکرتے ھیں تو DHA کے سیکورٹی والے ھمیں گالیاں اور ھوای فایرنگ کرتے ھیں ھمیں بھگاتے ھیں اور خد ڈوری سے مچھلی پکرتے ھیں سامی میمن نے کہا طالب آپ جاے انکے ساتھ میں نے اس نوجوان جن کا نا مامو ھے اپنے ساتھ فشرفوک کی گاڑی میں بیٹھایا اور اپنے ساتھ لے گیا وہ مجھے امار کمپنی کے گیٹ پہ لے گیا میں نے اپنا تعارف کروایا گیٹ پہ ایک آفیسر سے اس نے امار کمپنی کے سیکوڑٹی انچارچ سے میری بات کروای میں نے کہا کہ میں طالب کچھی جنرل سیکٹری کراچی فشرفوک میں نے کہا کہ ھمارے ماھیگر چھوٹی کشتیوں میں مچھلی پکڑنے آتے ھیں تو یہ سیکورٹی والے اسے گالیاں دیتے ھیں اور وھاں سے بھگاتے ھیں اور سیکورٹی والے خد ڈوری سے مچھلی پکڑتے ھیں مجھے آپ بتایں آپکے سیکورٹی والوں کو کس نے اجازت دی ھے ھمارے سمندر سے مچھلی پکڑیں اب سیکورٹی انچارچ نے معازت کی اور کہا کہ آپ کے لوگ آے ھم منا نہیں کرینگے اور ھمارے سیکورٹی والے مچھلی نھیں پکڑینگے وہ اپنا کام کریں اور مجھے کہا ان بچوں کو میرے پاس بیجنا اور اسکے بعد وہ شکار کرتے رھے کچھ اچھے لوگ بھی ھوتے ھیں اداروں میں بات آگے نکل گیی آپ سب دوستوں کو یاد ھوگا چند سال پہلے کلفٹن کے ساحل پہ کافی تعدات میں نہاتے ھوے لوگ ڈوب گیے تھے اس وجہ سے تمام لوگوں پر حکومت کی جانب سے پابندی لگادی تھی اور اسکے ساتھ ساتھ ساحل پہ ماھیگروں کو بھی مچھلی کے شکار پہ بھی پابندھی لگادی جو کافی دنوں تک لگی رھی جس کی وجہ سے ماھگیر جس میں گزری اور کیماڑی کے بہت پریشان ھوگیے اور کیماڑی اور گزری کے ماھیگر فشرفوک کے نمایندوں سے ملاقات کی اور ساری صورتحال بتای اس پہ فشرفوک کے وفد نے DHA والوں سے ملاقات کی پر وہ کسی طرح راضی نہ ھوے تو فشرفوک نے DHA کے ساحل پہ دوروزہ بھوک ھرتال کا علان کردیا مجھے یاد ھے جب ھم وھاں پونچے تو DHA کے سیکورٹی اور پولیس ھمیں ٹینٹ لگانے نھیں دے رھے تھے تو طاھرہ علی شاہ نے پولیس کے خلاف نارے لگانے شروع کردیا اور اب میڈیا بھی کافی تعدات میں آچکی تھی اس طرح ھم کینپ لگانے میں کامیاب ھوگیے بعد محمدعلی شاہ سعد بلوچ کوثر بلوچ مجید موٹانی بھی آگیے میں اور ایوب شان کمال شاہ پہلے سے موجود تھے خواتین میں طاھرہ علی شاہ فاطمعہ مجید رقیہ عثمان بھی موجود تھی اور دو دن بھوک ھرتال جاری جس میں کیماڑی اور گزری کے ماھیگروں کے ساتھ خواتین کی بڑی تعدات نے اس بھوک ھرتال میں شامل تھی جس کے نتیجہ میں کمیشنر شعب صدیقی نے ماھیگروں سے پابندی ختم بھی کروای بلکہ ان کو سندھ حکومت سے لایسنس بھی پہلی بار جاری کروایا جس میں کیماڑی اور گزری کے ماھیگر آزادانہ ماھیگری کرسکے بار حال اسکے بعد ایک بار سعد بلوچ مجید موٹانی ایوب شان قرطلین مرزا اور میں نے شعب صدیقی سے جیٹی کے حوالے سے ملاقات کی اس نے یقین دلایا پر اسکے بعد وہ کمیشنر کراچی نہ رھے پرماھیگروں کے ساتھ اس ملک کے ادارے بہت بڑا نام DHA نے صدیوں سے اس درتی کے مالک ماھیگروں کو اپنے تاریخی روزگار سے محروم کیا ترقی کے نام پر اس کائینات میں ایک خدا ھے جو اس دنیا کو تمام انسانوں چرند وپرندو کے لیے تخلیق کیا ھے پر افسوس اس درتی پہ نہ جانے کتنے خدا بن بیٹھیں ھیں پر گزری کے ماھیگر آج بھی روز جیتے ھیں روز مرتے ھیں اور وہ اس آس میں بیٹھے ھیں کہ کب آس پوری ھو گزری جو ماھیگروں کی بستی تھی اتنی بڑی زمین میں اسے کشتی رکھنے کی بھی اجازت نھیں یوں لگتا ھے جیسے گزری کے ماھیگر DHA کے قیدی ھیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں