میری کہانی میری زبانی – قسط نمبر 50

ماھی گیروں کا پیدل لانگ مارچ
طالب ڪڇي
دریاے سندھ کی موج مستی بحال کرنے کیلئے ڈیلٹا کی تاریخ میں پہلا پیدل لانگ مارچ 2 مارچ 2010 کو ڈیلٹا کے علاقے کھاروچھان سے شروع ھوا جیسے المنظر جامشورو پہ ختم ھونا تھا اگر دیکھا جاے تو حقیقی لانگ مارچ میرے خیال میں بڑا کٹھن مرحلہ ھوتا ھے اور بہت دلچسپ اور تجرباتی بھی تاریخ کا سبق یہ ھے کہ لانگ مارچ کے بانی چین کے رھنما ماوزے تنگ تھے چین میں شوشلزم انقلاب سے پہلے ایک لاکھ سپای لانگ مارچ پہ روانہ ھوے تھے ان میں سے صرف پانچ ھزار زندہ سلامت شمالی چین کے صوبے ۔ لی نان ۔ تک پونچ سکے 95ھزار سفرکی کٹھن راھوں میں لقمئہ اجل بن گیے بچی کچی فوج کا ھر سپای شجاعت کا پیکر تھا وہ جفاکوشی نبردآزمائ۔خطرپسندی کی بٹھی سے کندن بنکر نکلا تھےلانگ مارچ کے روح پر ور کارنامے سامراجی اور سرماے دارانہ جور وجفا کے خلاف جہدوجہد کرنے ولوں کے دلوں میں صدا عزم و حوصلہ کی روح پھونکتے رھیں گے لانگ مارچ فکری وعملی فیضان کا ایک نہ ختم ھونے والا سلسہ بن گیی ھے اور اسے انقلابی جہدوجہد کی ایک درخشاں علامت سمجھا جاتا ھے پاکستان کی اگر سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو پیدل لانگ مارچ کا بانی محترم رسول بخش پلیجو ھیں اسکے بعد کامریڈ جام ساقی بشیر خان قریشی ایاز لطیف پلیجو اور ماماقدیر بلوچ جو کویٹہ سے اسلام آباد تک مسینگ پرسن کے لیے پیدل لانگ مارچ کیا اور پاکستان فشرفوک فورم کے چیرمین محمدعلی شاہ فشرفوک فورم کے حصے میں آی جب پہلی بار رسول بخش پلیجو جس نے کالا باغ ڈیم کے خلاف یہ لانگ مارچ کر رھے تھے چونکہ میں رسول بخش پلیجو صاحب سے بہت متاثر تھا جب یہ پیدل لانگ مارچ کراچی گھگڑ پھاٹک پونچا تو ابراھیم حیدر سے امریکہ میں مقیم میرے دوست مجیدگبول جو عوامی تحریک کے سرگرم کارکن تھے اور ارباب چانڈیو جو بہت مشہور رپوٹر اور سینر صافی ھیں آج کل اس وقت ارباب چانڈیو بہت ھی بہترین مقرر تھے اس زمانے میں اور اکسر رسول بخش پلیجو کے جلسوں میں ان سے تقریر کروای جاتی تھی اور میں طالب کچھی ھم تینوں ساتھی دو دن اس پیدل لانگ مارچ میں شریک رھے اس زمانہ میں محمدعلی شاہ رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک کے کراچی کے صدر تھے مجید گبول ایوب شان ابراھیم حیدری کے یہ ساتھی سرگرم تھے اور میں سمجھتا ھوں ان دوستوں کی زیادہ سیاسی تربیت عوامی تحریک میں ھی ھوی تھی بارحال میں بات کر رھا تھا پاکستان فشرفوک فورم کی پیدل لانگ مارچ کی صبح سے لوگ کھارو چھان پونچ رھے تھے میڈیا کی ساتھی بھی پونچ چکے تھے دھوپ بڑ رھی تھی تقریب کا آغاز ھوتے ھوتے دن کے بارہ بج چکے تھے گرمی عروج پہ تھی آج ماھیگر سندھ کی ایک نیی تاریخ لکھنے جارھے تھے جنکے حوصلے بلند تھے فشرفوک کے چیرمین محمدعلی شاہ انب گوپانگ۔ سامی میمن۔ سعد بلوچ مصطفع میرانی علی محمد شاہ مسرت ماندھیریو۔امیر جت گلاب شاہ مجید موٹانی یوسف کڈانی صادق بلوچ ساجن شیخ رمضان ملاح عمر ملاح محمدملاح آزاد میر وای اور دیگر بہت سے ساتھی تھے ان میں ھماری بہت سی خواتین جس میں طاھرہ علی شاہ فاطمعہ مجید رقیہ عثمان زولیخہ بدین سے ادی بھاگی اور کچھ ڈیلٹا کی خواتین بھی شامل تھی یہ پیدل لانگ مارچ ان دوستوں کی قیادت میں المنظر جامشورو کی طرف قدم اوٹھاتے ھوے اپنی منظل کی جانب چل پڑا پیدل لانگ مارچ کا بینیر میرے اور ایک حمزہ ملاح کے ھاتھ میں تھا اور صبح سے شام تک یہ بینر ھم دونوں ساتھیوں کی زمیداری تھی اور 13 دن تک یہ ڈیوٹی ھم نے باخوبی انجام دی لوڈ اسپکر سے گیت اور نارے گونج رھے تھے ڈیلٹا کو پانی دو۔ دریاے سندھ کو بحال کرو۔ ھم نسلیں بچانے نکلے ھیں آو ھمارے ساتھ چلو ۔ مارچ مارچ لانگ مارچ ۔ اور پیدل لانگ مارچ اپنی منظل پہ رواں دواں کچھ آگے چل کر خواتین کو واپس جانے کو کہا پر میرے خیال میں چار خوتین جن میں ایک بدین کی مای بھاگی اور دیگر تین خواتین شامل تھی اس طرح یہ پیدل لانگ مارچ چل پڑا جو تقربن یہ سفر 400کلومیٹر جو 13 دن کا تویل سفر تھا ضلع ٹھٹہ کے ڈیلٹائ علاقے کی حثیت اور مقام سندھ کی تاریخ میں بڑی اھمیت رکھتا ھے۔ شاہ عبدلطیف بھٹای کے سر سامونڈی اور گھاتو۔ میں ڈیلٹائی علاقے کو خوشحال قرار دیا ھے اور اس خطے کی خوشحالی کو بہت موثر انداز میں بیان کیا گیا ھے ماضی کا خوشحال اور سرسبز ڈیلٹای علاقہ تباھی اور بربادی اور ویرانی میں تبدیل ھوگیا ھے یہاں کےلال چاول۔ پلہ مچھلی۔ شہد۔ اور مکھن سے آنے والے مہمانوں کی خاطر توازو کی جاتی تھی یہاں پر ماضی میں زیتون۔ آم۔ ناریل۔ کیلے۔پپیتے۔ سمیت بہت سارے پھل ھوتے تھے ھر طرف نیلی چادر جیسی درتی تھی ایسا محسوس ھوتا تھا کہ قدرت نے ڈیلٹا کو اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ھے اب دریائے سندھ پر زبردستی ڈیم اور کینال تعمیر کرنے کے سبب اس وقت کے ڈیلٹا کو اجڑتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ھے پہلے دن کا سفر بڑا تھکا دینے والا تھا گرمی عروج پہ راستے جہاں سوکھے درخت انسانی آبادی کا نام و نشان نہ تھا پہلے دن کا سفر 26 کلو میٹر تھا اس لانگ مارچ میں دو سو لوگ تھے باقی لوگ کھارو چھان سے ر خصت کر کے چلے گیے تھے جیسے جیسے شام ھورھی تھی دیگر قوم پرست پارٹیوں کے بھی جھنڈے کم ھوتے گیے اور لوگ بھی کم ھونا شروع ھوتے گیے ان دوسو افراد میں سے صرف پچاس افراد رھے گیے تھے بس صبح ناشتہ کرکے نکلے تھے سب کے پاوں چھل تھے کچھ دیر بیٹھ کر پھر سفر شروع کیا اور تقربن 9.30 رات بھگانر پونچے جس جگہ رات رھنے اور کھانا کھانا تھا اس جگہ کو تالا لگا ھوا تھا وہ شخص ھی غایب ھوگیا بعد پتا چلا کہ اسکا کوی عزیز فوت ھوگیا ھے گلاب شاہ نے ایک میرے خیال میں کوی اسکول وغیرہ تھی وھاں کے لوگوں سے ملکر بندو بست کیا اور رات آرام کیا صبح سویرے ناشتہ کرکے بھگانر سے پیدل لانگ مارچ اپنی منظل پہ رواں دواں چل پڑا لوڈ اسپیکر کی گاڑی میں انقلابی گیت جسم میں آکسیجن بھرتے شیخ ایاز کا گیت میرے دیداوروں میرے دانشوروں ۔ پاوں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو۔ اور ھمارے صوفی دانشور ماما امپ گوپانگ کی آواز لوڈ اسپیکر میں گونجتی وہ سوکھے درختوں کو دیکھ کر کہتے اے میرے سوکھے درختوں دیکھوں ھم تمہارے لیے نکلے ھیں آج تم سوکھے ھوے ھو ایک دن تم ضرور ھرے ھوگے اے میری نمکین زمین جب تو خوشحال تھی ھر جانب ھریالی تھی پر ھم پانی لے کر واپس آینگے وہ درد بھر آواز میں ھمارے حوصلوں کو طاقت دیتا جس شہر میں پیدل لانگ مارچ گزرتا سینکروں کی تعدات میں لوگ پھولوں کی بتیاں نچھاور کرتے پھولوں کے ھار سندھ کی اجرک کے تحفے پیش کرتے ھم حیران تھے اس قدر لوگوں کی محبت عوامی تحریک کے ساتھی جیے سندھ کے ساتھی سندھ ترقی پسند کے ساتھی ھر شہر ھر جگہ بھر پور استقبال کرتے ایسا پہلی بار ھوا سیاسی سماجی تنظموں نے جگہ جگہ کوی کھانے کا انتظام تو کہی رات پرڑاو اور کھانے اور ناشتہ کا انتظام شوشل میڈیا میں کیا سندھی کیا اردو میڈیا تمام چینل اس لانگ مارچ کی کیوریج خوب دے رھے تھے تمام اخبار کے مین پیچ پہ پیدل لانگ مارچ کی خبر لگی ھوتی تھی صبح ناشتے کے بعد روز تمام لانگ مارچ میں شریک دوستوں کو فشرفوک کے میڈیا کوڈینیٹر سامی میمن دوستوں کو شاباشی دیتے اور تمام خوبی خامیوں کا زکر کرتے اور ایک نیے جوش کے ساتھ اپنی نیی منظل کی جانب پیدلانگ مارچ اپنا سفر شروع کر دیتے ایک دو دن کے بعد طاھرہ علی شاہ وقفے وقفے سے اپنی خواتین کے ساتھ کچھ خاص جگہ پہ شامل ھوتی رھتی تھی جس میں فاطمعہ مجید رقیہ عثمان زولیخہ عثمان اور دیگر خواتین شامل ھوتی رھتی پر ادی بھاگی اور تین سے چار خواتین اس تویل سفر میں وہ مسلسل ھمارے ساتھ تھی سلام ھے ان بہادر خواتین کو جب کسی شہر سے گزرتے تو سامی میمن کی آواز گونجتی شہر میں بیٹھے ھوے لوگوں کو مخاطب کرتے ھوے کہتے میرے دوستوں آو ھماری بہنوں کا استقبال کرو ان دوستوں کا استقبال کرو جو سندھ کے پانی کے لیے نکلے ھیں ایسا نہ ھو کہ یہ قافلہ گزر جاے اور تمہارا ضمیر ملامت کرے سامی میمن کی یہ آواز سن کی سارے لوگ ھوٹلوں سے دوکانوں سے باھر نکل آتے اور پرجوش استقبال کرتے کچھ صاحب حصیت ان میں سے گزارش کرتے کہ قافلے والے ھماری چاے پی کر آگے بڑیں کچھ دیر ھوٹل میں تمام دوستوں چاے پی کر جب روانہ ھوتے تو ھماری قیادت کے ساتھی محمدعلی شاہ سامی میمن انپ گوپانگ سب اس دوست کا شکریہ ادا کر تے ھر شہر ھر جگہ ھمارے رھنما محمدعلی شاہ سعد بلوچ مصطفے میرانی گلاب شاہ مسرت ماندھریو جگہ جگہ خطاب کرتے اور کالاباغ ڈیم سندھو دریا کی بہالی کے حوالے سے اور انڈس ڈیلٹا کی تباھی کے حوالے سے خطاب کرتے اور مجمع سے وچن لیتے کہ آپ ساتھی 14مارچ کو اس پیدل لانگ مارچ میں شریک ھونے کی دعوت دیتے تمام کھڑے لوگ وعیدہ کرتے کہ ھم ضرور شریک ھونگے جب ھمارا یہ قافلہ سن سان راستے سے گزرتا دور مکانوں کے پاس بچے بڑی تعدات میں کھڑے ھوتے امب گوپانگ کی آواز گونجتی اے گھروں میں بیٹھی پردے دار میری ماں میری بیٹوں تم ھمارے لیے دعا کرنا ھم تمہارے سوکھے درختوں کے لیے تمہارے پانی کے لیے نکلے ھیں اے میرے بچوں دوڑے دوڑے آو ھم تمہارے نانا دادا ھیں ڈرو نھیں آو وہ بچے دور سے دوڑے دوڑے آتے ھم سب کی آنکھیں اشک بار ھوتی انپ گوپانگ درد بھر آواز میں کہتا اے میرے سندھ کے معصوم بچوں تمہارے پیروں میں چپل نھیں تمہارے ھاتھوں میں کتابیں نھیں اے میرے بچوں ان ظالم وڈیروں نے تمہاری اسکولوں کو اپنی اوتھاک بنالی ھے پر وہ وقت ضرور آیگا یہ وڈیروں کی اوتھاکیں اسکول بنے گی اور تمہارے ھاتھوں میں کتابیں ھونگی وہ بچے ھمیں اوداس نظروں سے دیکھتے اور قافلے سے بچے آستہ آستہ اوجھل ھو جاتے در صل اس لانگ مارچ میں وہ تمام ساتھی ایک سلجے اور ایم آرڈی کی تحریک میں حصہ لے چکے تھے گاوں گاوں شہر شہر گلی گلی اتنی شاندار موبالایزیشن یہ سب سیکھنے کا عمل تھا وہ منظر جب ھم جھوک شریف پونچنے والے تھے سب دوستوں کے پاوں زخموں سے چوڑ تھے خاص کر سامی میمن کے پیر کی تلوے کی پوری چمڑی اتر چکی تھی محمدعلی شاہ کے پیروں میں زخم مجید موٹانی غرض تمام ساتھی زخمی تھے پر میرے اور ظہور بلوچ چھالوں سے بچے ھوے تھے محمدعلی شاہ مجھے کہتے یار طالب تمہارے پاوں میں تو زادہ چھا لے ھونے چاھیے کیوں کہ تم بینر پکڑ کے چلتے ھو راستے میں پتھر یا ریت تمیں تو ھر حال میں گزرنا پڑتا ھے بار حال جھوک شریف میں داخل ھونے سے پہلے دور سے سندھ بلکہ دنیا کا پہلا شوشلسٹ صوفی شاہ عنایت شھید کے مزار کے گمبند نظر آے سامی میمن کی آواز گونجتی ھے کہ اک وہ شاہ تھا جس کا نعرہ تھا کہ جو کھیرے سو کھاے اک یہ شاہ ھے کہ جو کہتا ھے دریا اور جھیلوں پہ حق ماھیگروں اور ملاحوں کا ھے نہ کہ وڈیروں کا جب جھوک شریف پونچے تو سجادہ نشین نے استقبال کیا رات صوفی شاہ عنایت کے مزار پہ قیام تھا خوب مہمان نوازی کی سجادہ نشین نے جیسے مزار کے اندر داخل ھوے تو عجیب سماں تھا ھماری آنکھیں اشکبار تھی انکو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ھمارے پاس صرف آنسو تھے وادی سندھ ھمارے ماضی کی امین اور مستقبل کی نوید ھے۔ برصغیر کی سب سے قدیم تھزیب یہی ھے جس نے گزشتہ تین سے چار ھزار سال کی تاریخ میں بڑے بڑے نشیب و فراز دیکھے ھیں ایک وہ بھی وقت تھا جب معاشرہ ماضی کی دلدل میں پھنس کر آگے بھڑنے کی صلاحتیں کھو بیٹھا تھا تب تین سو برس گزرے ایک مرد مجاھد نے اجتماعی کھیتی باڑی کی بات کی اور اس نے نارہ لگایا جو کھیرے سو کھاے اس نے غریب کسانوں کی بات کی اس نے ایک نظریہ دیا لوگ انکے حلقے میں شامل ھونے لگے لیکن یہاں کے وڈیروں کو یہ بات پسند نہ تھی مغلوں کا دور تھا پر میرے خیال میں صوفی شاہ عنایت کی شہادت کے اسباب ومحرکات کا علم بہت کم لوگوں کو ھے ۔ صوفی شاہ عنایت نے جس وقت جھوک میں تعلیم و تبلیغ شروع کی تو سندھ کے بیشتر مشایخ صوفیا اور سعادات اپنے فرایض کو فراموش کرکے خالص دنیا دار اور زمیدار بن گیے تھے۔ اس اندھرے میں صوفی شاہ عنایت کے علم و فضل کی انکی خدا ترسی ۔ درد مندی اور بے لوث خدمت خلق کی روشنی پھیلی تو انکے چاھنے والوں کا ایک ھجوم ھونے لگا مگر صوفی شاہ عنایت ان روایتی صوفیوں میں نہ تھے جو حالات کو بدلنے کے بجاے صبرو قناعت کی تقلین کرتے ھیں بار حال صوفی شاہ عنایت کو دوکھے سے شھید کیا گیا اس پہ ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ھے اب ھرسال صوفی شاہ عنایت کا عرس شان وشکوکت سے منایا جاتا ھے مجھے اچھی طرح یاد ھے جب ھمارا لانگ مارچ سجاول پونچا تو سجاول شہر میں بھر پور استقبال ھوا مقررین خطاب کر رھے تھے اس وقت بلوچستان کے پیپز پارٹی کے رھنما اور سینٹ میں پانی اور بجلی کے چیرمین محمدلشکری ریسانی نے وھاں آکر استقبال کیا بلکہ خطاب بھی کیا خطاب کے دوران مجھے کراچی سے میرے عزیز حاجی آدم نے کال کی اور کہا کہ آپکے چاچا کی بیٹی آپکی بہین کا انتقال ھوگیا ھے پر میرے گھروالوں نے یہ خبر اس لیے نھیں دی کہ یہ جس مقصد کے لیے نکلا ھے وہ بھی نیک مقصد ھے حاجی آدم نے کہا بس اب جنازے کی تیاری ھے جب سامی میمن کو اس بات کا پتا چلا تو وہ تمام دوستوں کو بتایا اور مرحومہ کے لیے دعا کرنے کو کہا میرا دل بہت رنجیدہ تھا کہ اپنی بھین کو کاندھا نہ دے سکا پر ایک عظیم مقصد کے لیے یہ قافلہ چلا تھا اپنی نسلوں کی خاطر 12 مارچ کو جب حیدرآباد پونچے تو عوامی تحریک کے سربرہ رسول بخش پلیجو اور سول سوسایٹی نے بھرپور استقبال کیا ھر جانب پھولوں کی بتیاں اجرک کے تحفے عوامی تحریک کے سربرا رسول بخش پلیجو نے خطاب کیا اور فشرفوک کو سندھ کی ایک عظیم تحریک کہا اور ملکر جہدوجہد کرنے کا یقین دلایا رات فشرفوک کی مرکزی آفیس میں سب فشر فوک کے ساتھی آچکے تھے حسین جڑوار ایوب شان فیض پیرزادو مصطفے میرانی اور دیگر تمام دوستوں نے تمام سیاسی سماجی تنظیموں کو دعوتیں دینے اور سارے پروگرام کو آخری شکل دینے میں سرگرم تھے پورے ملک میں اس پیدل لانگ مارچ کے چرچے تھے شروع سے انجسیاں اور پولیس موبایل گاڑیاں پیدل مارچ کےساتھ تھی پل پل کی خبر اس عظیم لانگ مارچ کی دے رھے تھے حکمرانوں کو 13مارچ کو حیدرآباد میں لانگ مارچ کو کس طرح آرگنایز کرنا ھے محمدعلی شاہ کی سربرای میں تمام اسٹاپ اور لانگ مارچ میں شریک دوستوں کی صبح ناشتے کے بعد میٹنگ بلای گیی خاص کر سامی میمن تمام حاضرین سے کہا ھم سندھ کے مختلف شہروں سے گاوں سے گزرکر اس بڑے شہر حیدرآباد میں آگیے ھیں تمام ایجنسوں کی تمام سیاسی وسماجی تنظموں کی تم پر نظریں ھونگی آج کا دن ھم سب کے امتحان کا دن ھے بل کل منظم ترقے سے چلنا ھے وہ تمام ساتھیوں کو زمیداری دیتے رھے حقیقت میں وہ دن بہت شاندار تریقے سے لانگ مارچ ھوا سب حیران تھے کہ یہ ماھی گیروں کی تنظیم جو ایک تاریخ رقم کر رھی ھے حیدرآبادمیں بڑے منظم انداز میں پیدل لانگ مارچ گزر رھا تھا یہ ماھیگروں کا لانگ مارچ تھا حیدرآباد کی سیاسی سماجی ساتھی بھرپور استقبال کیا پر اب وہ گھڑی آن پونچی تھی 14مارچ پورے سندھ سے قافلے صبح 8بجے سے ھی آنا شروح ھوگیے تھے کراچی مبارک ولیج سے بابا بھٹ رھڑی پوری ساحلی پٹی سے فشرفوک کی بڑی تعدات قافلے جمع ھونےشروع ھوگیے اسی طرح سندھ کے ھر ضلع سے بڑی تعدات میں قافلے جمع ھونے لگے جس میں بدین سانگھڑ ٹھٹہ عمر کوٹ کشمور اور دیگر علاقوں شامل تھے تمام میڈیا چینل کی گاڑیاں لایف چلانے کے لیے سرگرم نظر آرھی تھی کراچی سے بڑی تعدات میڈیا کی خصوصی کوریج کے لیے آے تھے آج یو لگ رھا ھو کہ عید کا دن ھے ماھیگروں کے لیے تقربن دس بجے یہ عظیم لانگ مارچ محمدعلی شاہ سعدبلوچ مصطفے میرانی مجید موٹانی طاھرہ علی شاہ فاطمعہ مجید بھاگی اور ھزاروں کی تعدات میں خواتین سب سے پہلے لوڈ اسپیکر کی گاڑی جس پہ سامی میمن اور دیگر ساتھی لوگوں کو پرجوش ناروں سے گرما رھے تھے یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اس عظیم پیدل لانگ مارچ میں سب سے آگے میں اور ایک ساتھی حمزہ ملاح بینر کے ساتھ اور خواتین جو ھزروں کی تعدات میں تھی سب بینر کے پیچھے منظم تریقے سے پرجوش نارے لگاتی رھے تھی خواتین کے پیچے محمدعلی شاہ سعد بلوچ مصطفے میرانی مجید موٹانی کی قیادت میں ایک سمندر تھا جو آستہ آستہ بھر رھا تھا پیدل مارچ المنظر کی طرف بڑے لگا تو کراچی و حیدرآباد کی تمام سول سوسایٹی کے نمایندے استقبال کرتے رھتے پھولوں کی پتیاں اجرک کے تحفے پیش کرتے اور اس عظیم لانگ مارچ میں شامل ھوتے جاتےجہاں جہاں سے لانگ مارچ گزرتا پھولوں کی بتیاں ھی پتیاں تھی جسقم کے نیاز کالانی سندھ ترقی پسندھ کے رھنما ڈاکٹر قادر مگسی عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو پایلر کے کرامت صاحب اس عظیم پیدل لانگ مارچ میں شامل تھےیہ ماھیگروں کا پہلا پیدل لانگ مارچ تھا جو جو ساتھی اس لانگ مارچ میں شامل ھونگے وہ گواھی دینگے پورا المنظر جامشورو پل پہ انسانی سمندر تھا جامشورو پل پورا لانگ مارچ کے شرکاہ سے بھر چکا تھا سارے سیاسی سماجی لوگ حیران و پریشان تھے کہ ایک سول سوسایٹی کی ماھیگروں کی تنظیم اس قدر منظم انداز میں اس تحریک کا آغاز کیا ھے اسکی تعریف کرنے لگےآخر میں جہاں جلسہ ھوا بہت بڑا شامیانہ لگایا گیا تھا پر وہ جگہ ختم ھوچکی تھی پنڈال میں کہی تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اس موقع پہ ڈاکٹر قادر مگسی نے برملا اظہار کیا اور اقرار کیا کہ ھم مان گیے پاکستان فشرفوک فورم نے آج صابت کردیاے کہ یہ سندھ کی سب سے بڑی مومینٹ ھے یہ ڈاکٹر قادر مگسی کا بڑا پن تھا ایاز لطیف پلیجو نے پرجوش خطاب کیا اور ملکر جہدوجہد کا علان کیا تمام مقررین نے خطاب کیا آخر میں فشرفوک فورم کے چیرمین محمدعلی شاہ نے پیدل لانگ مارچ میں شامل تمام ساتھیوں کو سلام پیش کیا اور انڈس ڈیلٹا اور دریاے سندھ کی بحالی کے حوالے سے پرجوش خطاب کیا اور ایک علان کیا کہ آیندہ سال اسی جگہ المنظر سے اسلام آباد تک کاروں سندھو دریا کی بحالی کے لیے روانہ ھوگا حقیقت میں ایسی تحریک ٹیم ورک سے ھی ممکن ھوتی ھےفشرفوک فورم کے تمام ساتھیوں کی انتھک محنت اس میں شامل تھی ایسی تحریکیں جب اپنی منظل کو پانے کی جہدوجہد کرتی ھیں تو بہت سی قوتیں اسے توڑ نے کی سازش کرتی ھیں بارحال انڈس ڈیلٹا سے لاکھوں لوگوں کی نکل مکانی روزانہ ھزاروں ایکڑ زمین سمندر نگل رھا ھے کیٹی بندر کھارو چھان کی تیس لاکھ زمین سمندر نگل چکا ھے اس لیے انڈس ڈیلٹا کے لیے حکومتی سطح پر ایسی پالیسی بنای جاے کہ کم سے کم 35ایم اے ایف فٹ پانی کوٹری سے نیچے بہایا جاے تاکہ پانی کی قلت ختم ھو اور انڈس ڈیلٹا میں زندگی دوبارہ لوٹ آے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں