میری کہانی میری زبانی – قسط نمبر 52

موسیقی سندھ اور عوام
طالب ڪڇي
ایک پاکستانی فلم بنی تھی خدا کے لیے اور یہ فلم بہت مقبول بھی ھوی تھی پوری دنیا میں بلکہ بھارت میں بھی یہ فلم بہت مقبول ھوی تھی شعب منصور کی ڈاریکشن میں بنی شان اور بھارتی اداکار نصیرودین شاہ نے لاجواب اداکاری کی تھی اور اس فلم کا موضع انتہاں پسندھی تھا چونکہ میں خد فلموں اور موسیقی کا بچپن سے شوق رکھتا ھوں تو میں یہ فلم دیکھنے پہلا شو کیپڑی سینما میں چلا گیا جب یہ فلم ختم ھوی تو تمام سامین آپس میں بیس کرتے اور فلم کی تعریف کرتے ھوے میں بھی ھجوم سے نکلتے سنا بارحال مجھے تو فلم بہت پسند آی اس فلم کا آخر میں ایک سین ھے جس میں عدالت میں بھارتی اداکار نصیرودین شاہ ایک وکیل کے سوال موسیقی کہ حرام ھے یا حلال اسکا جواب وہ دیتا ھے آپ نے بہت اچھا سوال کیا ھے وہ کہتا ھے دنیا میں کتنے پیغمبر آے ایک لاکھ چوبیس ھزار اور ان میں سب سے چار نبی سب سے بڑے اور ان پہ چار کتابیں نازل ھوی اور ان سب انبیا کو معجزے عطا کیے گیے ھمارے نبی کا معجزہ ان پہ قران نازل ھوا حضرت موسی اگر دریا میں لاٹھی مارے تو دریا راستہ دیں حضرت عیسی کو یہ معجزہ کہ وہ مردو کو زندہ کر دیں اور حضرت داود کو کیا دیا موسیقی ایسی سریلی آواز جب وہ تلاوت کریں تو پہاڑ چرند پرندھے کھنچے چلے آھیں زبور اوٹھا کے دیکھے تو حضرت داود کو کتنے راگوں اور سروں پہ ابور حاصل تھا اگر موسیقی حرام ھوتی تو کیا اللہ اپنے پیغمبر کو حرام چیز دیتا اور حضرت عاشہ کو حضور یہ کہے جہاں بارات جارھی ھے وہ انثار ھیں اور انثار موسیقی کے بڑے رسیاں ھیں کیا تم نے انکے ساتھ گانے والیاں بھی بیجی ھیں کہ نھیں اور جب حضرت ابو اشری قرت پڑیں تو حضور سن کر یہ کہے کہ آپ کے گلے میں تو داود کا ساز آگیا ھے بار حال یہ تو ایک فلم کا زکر تھا جو اس موضع پہ بنی تھی اور جیو چینل پہ اس فلم کے بارے میں علماے کرام سے بھی راے لی جاتی تھی میرے خیال میں اس میں اختلاف بی ھے کچھ حق میں اور کچھ مخالفت میں میرے خیال میں دنیا میں جتنے لوگ ھیں وہ موسیقی کو بہت زیادہ پسند کرتے ھیں خا وہ کسی مزھب سے تعلق رکھتے ھوں کیا ھمارے ملک میں لوگ موسیقی نھیں سنتے 80 فیصد لوگ موسیقی کو سنتے ھیں اور زیادہ وہ لوگ ھیں جو پانچ وقت نماز پڑتے ھیں روزے رکھتے ھیں پر وہ موسیقی کو سنتے ھیں الحمدو للہ سب ھمارے بھای مسلمان ھیں اور ویسے بھی ھمارے صوفیاے کرام بھی قوالی کو جس میں ساز ھے وہ سنتے تھے بلا وجہ اس موضع کو چھیر کر کیوں اپنی مرضی لوگوں پہ زبر دستی ٹھوپی جارھی ھے یہ سمجھ سے باھر ھے سندھ صوفیوں کی درتی ھے اور سندھ امن محبت بھای چارے کی درتی ھے سچل سامی سے شاہ عبدللطیب بھٹای کی درتی ھے شاہ لطیف خد موسیقی کو پسند کرتے تھے شاہ لطیف سندھی تہزیب کا نقطہ عروج ھیں انکے کلام میں سندھ کی روح تڑپتی ھے۔ سندھ کا دل دھڑکتا ھے سندھ کی سوندھی سوندھی خشبو آتی ھے شاہ لطیف کو یہاں کے ٹیلوں پہاڑوں۔ ندی نالوں۔ جھاڑیوں اور جھنگلوں۔ بے آب و گیاہ ریگستانوں ۔ جھیلوں اور تالابوں سے اتنا پیار تھا کہ شاھد کسی داستان کا ایک صحفہ ایسا ھو جس میں سرزمین سندھ کے گن نہ گاے گیے ھوں وہ کبھی سسئ کی زبان سے کبھی ماروی کی زبان سے اور کبھی اپنی زبان سے یہاں کے دہقانوں ۔ چرواھوں۔ بنجاروں جوگیوں۔ بیراگوں مچھیروں اور ملاحوں کی زندگی کی تصویر کھینچتے ھیں مشہور ساز تنبورا شاہ عبدللطیف بھٹای کی ایجاد ھے موسیقی اس درتی پہ ھزروں سالوں سے بلکہ بہت قدیم ھے ماضی کی تاریخ کا مطالہ کریں تو ھمیں یہ معلوم ھوتا ھے کہ برصغیر کی جو موسیقی ھے بعد پوری دنیا میں چھاگئ اسکی اپتدا ان گیتوں سے ھوتی ھے جو رزق محبت اور انسان پیدا کرنےکے عمل میں تخلیوق کیے گیے اور انکو جادو کی مشقوں میں منتروں کے طور پہ گایا گیا۔ مل کر محبت کرتے ھوے اجتماعی انداز میں بھی گایا گیا اور عشق و محبت کے لمحوں میں عورتوں اور مردوں نے بھی گیایا ورنہ تصور یہ تھا کہ موسیقی انکے راہبوں اور دیوتاوں نے اوپر سے اتارا تھا پر برھمنوں نے یہ بات تسلیم کی ھے مقامی محنت کشوں کے گیتوں کی تاثیر جادو کی قوت رکھتی تھی تاریخ بتاتی ھے کہ ھندوستانی مزاھب نے محنت کشوں کے بناے ھوے اسی اصول پر عمل کرنے کی کوشش کی اور اپنے کلام کو نغمہ۔ ترنم اور اجتماعی گانے کی صورت میں پیش کیا اسی طرح بات چیت کے دوران کیے جانے والے ھاتھوں۔ چہرے اور اعضا کے اشاروں کو رقص کی صورت میں منظم کرکے پیش کیا۔ دوسری طرف فوجی قوت سے پھیلاے جانے والے مزاھب میں ایسے گانے اور رقص پر پابندی لگادی گیی جس میں محنت امن اور محبت کا انداز پایا جاتا تھا جبکہ انکی مارشل میوزک کے انداز اپناے گیے فوجی اور غیر فوجی موسیقی یا ردھم کی ایک صورت آج ھمیں پاکستان میں بھی ملتی ھے مثلا جماعت اسلامی کے جلسوں میں قدموں کی چاپ اور نعرے کا انداز بھی فوجی ھوتا ھے جبکہ صوفیوں کی تحریکوں سے متاثر عوام و ترقی پسند پارٹیوں کے جلسے جلوسوں میں ناچتے نظر آتے ھیں ان کا انداز دھمال کہلانے والے صوفیانہ رقص ھوتا ھے ماضی میں ھم سنتے ھیں کہ جب بارش نہ ھوتی یادیگر مساحل ھوتے تو وہ گیت اور موسیقی کے ردھم سے وہ بارش یا بادلوں کو جمع کرتے پر یہ انکا عقیدہ تھا پر ردھم میں ایک قوت ضرور ھے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں ھم ماھی گیر ھیں اور ھمارا یہ تجربہ ھے کہ ایک بڑی لانچ جب پانی اتر چکا ھوتا اور اسکے کام کے حوالے سے اسے دوسری طرف قلٹی کرنا ھوتا تو کافی لوگ زور لگاتے پر اور دوسری جانب قلٹی نہ ھوتی اگر اسکو سب ملکر ایک بندہ اپنے مخصوص آواز میں کورس کے انداز میں آواز دیگا ۔ جس کے یہ الفاظ ھیں۔ ھلابینس ۔اسکے آواز کے ساتھ سب ملکر آواز لگاینگے تو کشتی فوری قلٹی ھوجایگی یہ ردھم کا ھی اسر ھوتا ھے بنا بولے سب زور لگاو کچھ نہ ھوگا بارحال اس ملک میں بس نے والے سب مسلمان ھیں وہ کڑوروں مسلمان اولیا اللہ سے عقیدت رکھتے ھیں وھاں قوالیاں ھوتی ھیں جس میں حمدونعت خدا کی حمدو ثنا اورحضور کی تعریف کی جاتی ھے جس میں موسیقی ھوتی ھے اور یہ سلسلہ صدیوں سے چل رھا ھے ساز کوی بھی ھو وہ ساز ھے چاھیے دف ھو چاھیے ڈول ھو ھر خطے کے اپنے اپنے ساز ھیں کس خطے کے لوگوں کا کیا ساز ایجاد کیا کس نے کوی اور بارحال بجاے ھم موسیقی میں اٹکے ھوے ھیں زور اس بات پہ دیا جاے کہ گھی میں ملاوٹ دوایوں میں ملاوٹ دودھ میں ملاوٹ کم تولنا قیمت سےزیادہ قیمت لینا یہ سب نیک لوگ ھیں نماز بھی پڑتے ھیں پڑ یہ سب کیوں رھا ھے غریب آدمی اپنے بچوں کو دوقت کی روٹی نھیں کھلا سکتا ان مسلوں پہ دیان دو سندھ ھزاروں سالوں سے امن پیار کی درتی ھے ھم سب مسلمان ھے ۔کسی صوفی نے کیا خوب کہا ھے۔ جب عشق میں سر نہ دیا دوجگ جایا تو کیا کیا۔ ملا کتابیں کھول کر مسلہ پڑا تو کیا کیا ۔ پڑتا ھے عمل کرتا نھیں عالم بنا تو کیا کیا۔ جوگی جگت کرتا کرتا نھیں کپڑا رنگا تو کیا کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں