میری کہانی میری زبانی – قسط نمبر 53

ھاری کانفرنس اور سندھ
طالب ڪڇي
میں اور ایوب شان فشرفوک کے مرکزی جنرل سیکٹری سعد بلوچ سے ملنے HRCO ھافیس صدر میں ملنے چلے گیے ملنے کے بعد کافی دیر سیاسی سماجی حوالے سے باتیں ھوی تو اچانک سے کہا طالب ھاری کانفرنس میں جاوگے شکار پور میں نے ایوب شان کی طرف دیکھتے ھوے کہا جی بل کل جاینگے اور اس طرح ایوب شان بھی تیار ھوگیا یہ کانفرنس پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی جانب سے منقد کی جاری تھی 27 نومبر 2022 کو سعد بلوچ نے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے رھنما فاروق طارق کو کال کی اور کہا طالب کچھی اور ایوب شان آرھے ھیں کانفرنس میں یہ دونوں میرے پاس کھڑے ھیں فاروق طارق نے کہا ویلکم بار حال سعد بلوچ نے کہا آپ ایسا کریں آج ھی ٹکٹ بک کروالیں اور ھم دونوں فیصل کوچ کی دو ٹکٹیں بک کروالی 26نومبر رات 8 بجے کی 26 کو رات فیصل بس کوچ میں بیٹھے تو محسوس ھوا کہ اس کوچ کی سرویس بہت اچھی ھے بانصبت ڈایو بس کے پوری رات سفر کیا صبح پانچ بجے سکھر پونچ گیے رکشہ پکڑا اور اڈریس بتایا رکشہ والے کو اور رشکے میں بیٹھ گیے سردی نے استقبال کیا اس گیسٹ ھاوس کے پاس اوتارا جہاں پہ دیگر ساتھی پنجاب سے آے تھے میں نے ایوب شان کو کہا سر ایسا کرتے ھیں کسی ھوٹل میں چائے پیتے ھیں بعد صبح آجاتے ھیں گیسٹ ھاوس اور اس طرح ھم کافی دور ایک ھوٹل میں چائے پینے چلے گیے صبح کی چائے اور سردی تو چائے کا مزہ بھی اپنا ھوتا ھے چائے پی کر گیسٹ ھاوس پونچے اور اندر داخل ھوتے ھی کاونٹر پہ معلومات حاصل کی تو وہ ھمیں فاروق طارق کے کمرے کے پاس لیں گیے دروازے کو ٹک ٹک کیا تو فاروق طارق صاحب نکلے اور ھم دونوں سے ملے ایوب شان کو اپنے کمرے میں بلایا اور مجھے اشارہ کیا کہ آپ اس میں چلے جایں میں نے اس کمرے میں ٹک ٹک کیا تو پروفیسر زغم خان نکلے ھاتھ ملایا اور کہا آپ پونچ گیے میں نے کہا جی اس نے کہا کچھ دیر آرام کرو 8 بجے ناشتہ ھے بار حال صبح جلدی جلدی فریش ھوکر ناشتے پہ تمام ساتھیوں سے ملاقات ھوی اور سفر کے بارے میں بات چیت ھوتی رھی ٹھیک 9 بجے کوسٹر میں ساتھیوں کے ساتھ اور شکار پور جہاں گیارہ بجے ھاری کانفرنس ھونی تھی گاوں مبارک کھوسو ضلع شکار پور ھمارا وفد اس گاوں میں وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے پونچ گیا اس گاوں میں یہ پہلا جلسہ تھا میں خد حیران تھا کہ اس گاوں میں تو دور دور مکان ھیں کتنے لوگ آینگے یہ پنڈال کیسے بھرے گا پر مجھے دیکھ کر حیرت ھوی کافی تعدات میں خواتین پہلے سے موجود تھی وھاں پونچنے پر وھاں کہ نوجوانوں نے پر جوش استقبال کیا ھاری جدوجہد کمیٹی ضلع شکار پور کے رھنما جان نثار کھوسو صاحب نے بہت محنت کی تھی اس کانفرنس کو کامیاب کرنے کے لیے لوگ ٹولیوں کی شکل میں آتے گیے جس میں دیگر علاقوں کے سیاسی سماجی لوگوں کی بڑی تعد تھی اب پنڈال پورا بھر چکا تھا اسٹیج پہ فاروق طارق صاحب محترمہ صاعمہ محترمہ رفعت پروفیسر زغم خان فشرفوک رھنما ایوب شان جان نثار کھوسو اور دیگر موجود تھے تمام مہمانوں کو اجرک کا تحفہ پیش کیا گیا جو سندھ کی خاص سخافت ھے مجھ ناچیز کو بھی اسٹیج پہ بلاکر اجرک کا تحفہ پیش کیا گیا یو لگ رھا تھا کہ جیسے جنگل میں منگل ھے سب مقررین نے ھاری کے ساتھ جو رویا رکھا جاتا ھے جس طرح یہ کسان اپنی محنت پسینے سے زمین کو بھو تا ھے اسکا وہ حق نھیں ملتا تمام ساتھیوں نے جس طرح ھاریوں کے اشوز کو بیان کیا گیا وہ قابل تعریف تھا اس موقع پہ جان نثار کھوسو نے کہا کہ میرے والد محترم کی اس علاقہ کے لیے بے پناہ خدمات ھیں یہ کانفرنس وڈیروں کے لیے ایک پیغام ھے اپنے حق مانگنے کے لیے جناب فاروق طارق صاحب نے تفصیلی خطاب کیا فاروق طارق نے ماحولیاتی تبدلی کے اسرات سے کسانوں کو مشکلات مصر میں ماحولیات کے موضع پہ جو کانفریس ھوی جس می دنیا سے 45 ھزار لوگوں نے شرکت کی تھی وہ خد بھی اس کانفرنس میں شریک تھے فاروق طارق صاحب نے کہا کہ سندھ کے صوفی شاہ عنایت شھید نے کہا تھا جو کھیرے سو کھاویے ھم بھی یہی چاھتے ھیں زمین کے اصل مالک ھاری اور کسان ھیں نہ کہ کوی وڈیرا ماحولیاتی تبدلی پہ بھی سیر حاصل گفتگو کی یاد رھے کہ پاکستان میں 30 کسان تنظیموں کا نیٹ ورک ھے 2003 سے کسانوں کے حقوق کے لیے کوشاں ھے زمین۔ مالکانہ حقوق۔ خوراک کی خد مختاری۔ ماحولیاتی انصاف کے اصول کے لیے۔ لینڈ مافیا اور جاگیداری کے خاتمے کے لیے جدجہد پہ ھاریوں کو منظم کر رھے ھیں ۔ مجھے اس جلسہ میں ایک بات نظر آی کہ 11بجے سے چار بجے تک لوگ بیٹھے رھے جب جلسہ ختم ھوا تو چونکہ ھمیں واپس کراچی آنا تھا رات تو فاروق طارق صاحب نے کہا نھیں یہ دونوں کو لاڑکانہ لیں جاینگے میں تو فوری تیار ھوگیا کیوں کہ مہنجو داڑو مجھے دیکھنے کا بہت شوق تھا ویسے بھی ایوب شان بھی سفر میں بہت لاجواب انسان ھیں بارحال ھم سب گاڑی میں بیٹھے اور ھمارے ساتھ جانثاعلی کھوسو بھی ساتھ تھے پہلے ھم تھیرتھل کنال کا وزٹ کیا یہ پاکستان کا سب سے بڑاسیم کنال ھے یہ پانی بلوچستان کے گزدار کی طرف جاتا ھے بعد میں روک ریلوے اسٹیشن گیے سورج ڈھلنے والا تھا جو جھاڑیوں میں چھپ رھا تھا وہ لال رنگ میں تبدیل ھوچکاتھا ھم سب جلدی جلدی اس جگا پونچے جہاں پہ سندھ کے صوفی راگی کنور بگت رام کو گولی مار کر شھید کیا گیا تھا اب وہ اسٹیشن تو خیر بند ھے پر آج بھی لوگ یہ جگہ دیکھنے ضرور آتے ھیں جو صوفی کنور بگت رام سے محبت کرتے ھیں بارحال شام ھوچکی تھی اور ھماری گاڑی لاڑکانہ کی طرف دوڑتی ھوی آخر کار رات 8 بجے منہجوداڑو ریسٹ ھاوس پونچے تو مجیب پیرزادو صاحب نے ریسٹ ھاوس میں استقبال کیا سارا انتظام کیا تھا بہت بہترین ریسٹ ھاوس تھا رات کھانا کھانے کے بعد فاروق طارق صاحب نے کہا دوستوں صبح سویرے ناشتہ کرکے مہنجو داڑو کا وزٹ کرکے ھمیں 9 بجے سیلاب سے متاثرین کے پاس جانا ھے تمام ساتھی اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گیے صبح سویرے میں باھر نکلا تو فاروق طارق سب سے پہلے ساتھیوں کے منتظر تھے کہ جلدی سب ناشتہ کر لیں میں نے دل میں کہا لیڈر ایسے ھونے چاھیے بار حال ناشتہ کے بعد فاروق صاحب کی سربرای میں مہنجو داڑو کے وزٹ پہ روانہ ھوگیے وھاں کا ایک گایڈ جاویدعلی سندھی بہت ھی قابل بہترین شخصیت اور انکی باتوں میں سندھ سمایا ھوا تھا ھماری خوش قسمتی تھی جو مہنجو داڑو کے وزٹ کے دوران ایک ایک جگہ کا تفصیل سے وزٹ کروایا مہنجو داڑو واری سندھ کی قدیم تہزیب کا ایک اھم مرکز تھا یہ لاڑکانہ سے بیس کلو میٹر دور اور سکھرسے 80کلو میٹر جنوب میں وقع ھے یہ شہر 2600. قبل مسیح میں موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوحات کی بنا پر ختم ھوگیا پر ماھیرن کے خیال میں دریاے سندھ کے رخ کی تبدیلی۔ سیلاب۔بیرونی حملہ یا زلزلہ اھم وجوھات ھوسکتی ھے پر سندھ کی تہزیب 5ھزار سال پہلے کتنی دنیا کی عظیم تہزیب تھی یہ دیکھ کر حرت ھوتی ھے کہ ھر دو گھر کے بیچ ایک پانی کا کنوں ھر گھر میں باتھ روم سوریج کا نظام اناج رکھنے کے محفوظ گودام سوینگ بول بندرگاہ بے شمار ایسی مثالیں جیسے دیکھ کے حیرت ھوتی ھے انسانوں کو کپڑا پہن کا ڈنگ مہنجو داڑو کے ھنر مندوں نے سیکھایا سندھ کا کپڑا بہت مشہور حضرت عیسی کی پیدایش سے پہلے تھا میوزیم کا جب وزٹ کیا تو بڑی معلومات ھوی مجھے تو مچھلی پکڑنے کی کنڈی جسے ھم ماھیگر کلو کہتے ھیں وہ دیکھ کر سوچنے لگا یہ تو ملاح تھے کیوں کہ انسانی تہزیب دریاوں اور سمندر سے شروع ھوتی انسان کی پہلی خوراک مچھلی تھی بار حال مہنجوداڑو فخر ھے سندھ کا بلکہ پاکستان کا ایوب شان نے فشرفوک لاڑکانہ کے صدر امام علی ملاح کو کال کی تو وہ بھی آگیا اسی جگہ ماھی گیروں کا بہت بڑا گوٹھ ھے ھم نے فاروق طارق سے امام علی کا تعارف کروایا اور ھم ملاح برادری کے گوٹھ گیے جہاں پہ سیلاب و بارش سے متاثرین سے ملاقات کی پورے گاوں کے گھر زمین بوس تھے ھماری گاڑی کو دیکھ کر لوگ جمع ھونا شروع ھوگیے وہ یہ سمجھے کہ کوی امداد دینے والے آگیے ھیں اور ظاھر ھے جن کی گھروں کی چھت نہ ھو کھلے آسمان تلے بیٹھے ھوں پر فاروق صاحب نے محبت سے کہا ھم آپ سے اظہارے یکجہتی کے لیے آے ھیں ھم دیگر اداروں کو لکھیں گے کہ وہ آپکی مدد کریں ھم نے بھی اپنے ماھی گیر ساتھیوں سے بیٹھ کر حال حوال کیا فاروق صاحب نے کہا کہ یہ آپ کے فشرفوک کے ساتھی ھیں یہ بھی ھمارے ساتھ ھیں مجھے پتا ھے انکا وہ حال نھیں جوپہلے تھا پر ھم کچھ کنبل وغیرہ تو چار دن میں بیج دینگے میں نے اور ایوب شان نے فشرفوک کے ساتھیوں سے حال حوال کیا اور ساری صورتحال سے اگاہ بھی کیا آخر میں امام علی ملاح اور دیگر ماھیگر ملاح ساتھیوں سے اجازت مانگی اور گاڑی سکھر کی جانب روانہ ھوی تو میں سوچنے لگا ھم نے صرف ایک گاوں دیکھا ھے جو پورا گاوں زمین بوس ھوگیا ھے جوچند مکانات تھے وہ سلامت تھے سندھ میں ایسے مکانوں کی تعدات لاکھوں میں ھوگی حکومت سندھ کو چاھیے کہ ان مسکین لوگوں کی داد رسی کریں سکھر پونچے تو ھم نے تمام دوستوں سے اجازت مانگی پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے رھنما فاروق طارق صاحب گاڑی سے اوتر کر ھم سے گلے ملے سب دوستوں کو خدا حافظ کہا اور گاڑی لاھور کی جانب ھماری آنکھوں سے اوجھل ھوگیی سامنے فیصل بس کی آفیس گیے اور رات 11بجے کی کراچی کے لیے ٹکیٹ بک کروای دوپہر کے تین بج رھے تھے وقت بھی بہت تھا تو ایوب شان نے کہا فشرفوک ضلع کے صدر غلام قادر کو فون کیا کہ میں اور طالب کچھی سکھر میں ھیں غلام قادر نے کہا میں خیر پور میں ھوں شام کو آپ سے رابطہ کرتا ھوں وہ شام مغرب کے بعد سکھر اپنی بایک پہ آگیے وھی نزدیک ایک ھوٹل میں بیٹھے کافی دیر تک تنظیمی سیاسی سماجی گفتگو ھوی سردی بھی تھی میرے خیال میں رات کے 9 بج رھے تھے ھم نے آپ اب آرام کریں غلام قادر نے بہت اسرار کیا کہ آپ نے کھانا نھیں کھایا ھمارے سندھ کی روایت ھے ایوب سر نے کہا اصل میں ھم چار بجے کھانا کھایا ھے ورنہ ضرور کھاتے اور انسے گلے ملتے ھوے اجازت مانگی ٹھیک گیارہ بجے بس آگیی اور ھم کراچی کی جانب روانہ ھوگیے صبح سویرے 7بجے تاج کنمپلیس صدر پونچ گیے آج میں یہ سوچ رھا ھوں کہ اس ملک کے پسے لوگ چاھے کسان ھو ھاری ھو مزدور یا ماھی گیر انکی تقدیر اس وقت تک نھیں بدلے گی جب تک انسے کوی مسیحا نہ آے گا۔ یہ دور جبر کا جاے گا پھر وقت تمہارا آے گا۔ بس رات کا سایہ ڈھلنے دے ۔ پھر صبح کا اوجالا چھاے گا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں