میرا کراچی ایسا تو نہ تھا
طالب ڪڇي
یہ سن 63 کی بات ھے میری عمر کوی دس سال ھوگی کیماڑی سے جیکسن بازار پوسٹ آفیس کے سامنے سے میں اور میرا ھم عمر رمضان ھر ھفتہ ٹرام بس میں بیٹھ کر اکسر سیول ھسپتال جایا کرتے تھے ٹوکن کے لیے تاکہ میری والدہ اور رمضان کی والدہ آسیہ خالہ جو دوای لینے ھسپتال آیا کرتی ھم سویرے ٹوکن لینے چلے جاتے اور میری والدہ آسیہ خالہ کچھ دیر کے بعد آتی تھی گھر کا کام نمٹا کر میری والدہ کو ٹی بی تھی اور آسیہ خالہ کو بھی ٹی بی تھی میرے خیال میں اس وقت بہت لمبا علاج تھا ٹی بی کا اس وقت ھسپتال میں اتنا رش تو نھیں ھوتا تھا پر ٹی بی کے مریض زیادہ تھے زیادہ خواتین بلوچ اور کچھی میمن اور دیگر زبان بولنے والی خواتین ھوتی تھی میری والدہ اور آسیہ خالہ کی دوستی بھی سول ھسپتال میں ھوگیی تھی تو سوچا ھم دونوں کیماڑی کے ھیں تو کیوں نہ ایک ساتھ آے اس طرح انکے بیٹے رمضان کے ساتھ مجھے پہلے ٹوکن لینے کے لیے بیج دیتی رمضان مجھسے کچھ تیز تھا وہ واقف بھی تھا میری والدہ کو آسیہ خالہ نے بہین بنایا تھا مونہ بولی اور یہ رشتہ سگی بہنوں کی طرح انکی وفات تک قایم رھا کبھی مجھے ایسا محسوس ھی نھیں ھوا کہ یہ کوی سوتیلی میری خالہ ھے بہت محبت کرتی تھی مجھسے اور میری والدہ بھی انکے بچوں سے بہت پیار کرتی تھی ماضی کے رشتہ کتنے مضبوط ھوا کرتے تھے پر کیماڑی کی بندگاہ سے ٹرام کا سفر بہت اچھا لگتا تھا اور ھم بچوں سے کرایہ تو بل کل نھیں مانگتے تھے ٹرام کے کنڈیکٹر بھی با اخلاق ھوا کرتے تھے وہ کراچی کے مقامی لوگ تھے ریل کی پٹریوں کی طرح پٹریوں سے گزرتی ٹن ٹن ٹن کی گھنٹی باجاتی نہ دھوا نہ فضای آلودگی ویسے بھی روڈ رستے بل کل صاف ھوا کرتے تھے مین مرکزی اسٹاپ بولڈن مارکیٹ ھوا کرتا تھا روڈ پہ زیادہ سواری ٹانگہ گاڑی اونٹ گاڑیاں اورٹرک جو کل کل کھلی ھوتی تھی جو آج بھی لیاری والوں کے پاس ایسی ھی ھیں مجھے یاد ھے جب ھمارے محلے سے کوی فیملی حج کو جاتی تو پورے محلے کے بچے اور خواتین اونٹ گاڑیوں میں بیٹھ کر جاتے جب پانی کے جہاز چلا کرتے تھے اور اگر ویسٹ وھارف پہ جہاز آتا تو ورنہ اگر کیماڑی ایک نمبر پہ جہاز آتا تو سب جلوس کی شکل میں پیدل جاتے اس وقت KPT کا پورا پورٹ لکڑے کا بنا ھوا تھا اور وہ بہت مضبوط بھی تھا انگریزوں کے دور کا بنا ھوا تھا بہت سے لوگ اپنی جیب سے ھار خرید کر جو نیلون کے داغوں سے بنے ھوتے تھے رنگ برنگی ھار وہ مدینے سے آنے والوں کے گلے میں ڈالا کرتے تھے خا کوی بھی حاجی ھو کتنی محبت تھی ایک دوسرے میں پر سکون تھے سب امن سے رھتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ھے اس وقت ڈبل بس بھی چلا کرتی تھی بس کے اندر ایک سیری ھوا کرتی تھی اور مسافر اوپر کی سیٹ پہ بیٹھ جاتے پر مجھے سایکل رکشہ بھی یاد آگیا جب فشری گاس بندر پہ تھی میرے والد کے ساتھ گاس بندر اس سایکل رکشے میں بیٹھ کر فشری جایا کرتا تھا میرے خیال میں یہ ساری ٹرانسپوٹ کراچی کے مقامی لوگ چلایا کرتے تھے اور نیے سندھی ھمارے بھای اردو بولنے والے گھوڑا گاڑی یا اونٹ گاڑی گدھا گاڑیوں کے لیے جگہ جگہ پانی کے خوبصورت تالاب بنے ھوے تھے مطلب جانور کے تیل بھرنے کی جگہ تھکے ھارے جانوروں کا تیل تو یہ پانی ھی تو تھا وہ جانور اس تالاب سے پانی پی کر اپنی پیاس بجا کر ترو تازہ ھوکر مالک کے اشارے پہ اپنی منظل کی جانب رواں دھواں یہ سب انگریزوں کے دور کی بنی چیزیں تھی جسے ھم کافر اور بے دین کہتے نھیں تھکتے ھماری پولیس کے پاس کوی بندوق نہ تھی چنڈی گوٹنے کے نیچے تک بس سر پہ کیپ اور کمر پہ ڈای فٹ کا ڈنڈا جو پالیش کیا ھوا اوپر کے حصے میں ایک سراخ جس میں رسی ھوا کرتی تھی پستل کی جگہ وہ ڈنڈا ھوا کرتا تھا جب میں جوان ھوا اور زولفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اس وقت تک اکسر آخری شو فلم کا دیکھ کر واپس بندر روڈ سے پیدل چلتے چلتے اگر دور سے کسی پولیس والے کو کھڑا دیکھتے تو دل کو سکون ملتا کہ پولیس والا کھڑا ھے جو ھمارا محافظ ھے آج اگر آپ کسی پولیس والے کو دیکھوں گے تو سمجھ جاوگے کہ یہ تنگ ھی کریگا اور ایسا ھی ھوتا ھے آج سے دو تین ماہ پہلے میں اور ایوب شان لاھور جارھے تھے بس سویرے 8بجے صبح جانے کو تھی 6بجے ابراھیم حیدری سے جلد نکلے کیوں کہ ڈایو بس ٹایم پہ نکلتی ھے رکشی میں بیٹھے تھے تو اسٹاب کہ پاس پولیس کی ایک گاڑی کھڑی تھی اس نے رکشہ روکا حالکہ وہ دیکھ رھے تھے کہ یہ بزرگ ھیں ھمیں نیچے اوتار کر تلاشی لی مجھے عجیب سا لگ رھا تھا کہ عجیب تماشہ ھے بس بیک میں دو جوڑے کپڑوں کے تھےوہ بیک کو چیک نھیں کر رھے ھیں ھماری جیب میں ھاتھ ڈال کر دیکھ رھے تھے میں نے سندھی میں کہا بہت افسوس ھوتا ھے آپ لوگوں کا یہ رویا دیکھ کر توتلاشی لینے والے نے کہا فکر نہ کرو پیسے نھیں نکالتے میں پھر بڑبڑایا بہت افسوس ھوتا کیا ھم چوڑ ھیں ڈاکو ھیں یا دیشت گرد ھیں ھم درتی کے لوگ چوڑ اور وہ جو جارھے ھیں بڑی بڑی پگڑی باندھے جو اس صوبے یا اس ملک کے ھی نھیں اسے چیک نھیں کرتے بہت افسوس اب وہ پولیس والے شرمندہ سا ھونے لگا میں نے بعد اپنا تعارف کروایا کہ میں ایک زمیدار شہری ھوں میرے ساتھ بیٹھا میرا ساتھی ایک ٹیچر ھے اب انکے پاس کوی جواب نہ تھا پر کیا کریں وقت کم تھا گاڑی نکلنے میں یہ حالت ھے آج کی ھماری پولیس کی بارحال اس وقت جب فلم کا آخری شو دیکھ کر کھارادر بانکرا ھوٹل پہ کھانا کھاے بیغرگھر جایں تو سوال ھی پیدا نھیں ھوتا بہت عالی کھانا صاف ستھرا دو ھوٹلیں تھی کھارادر پہ بانکڑا ھوٹل تین سے چار روپے میں پیٹ بھر کے کھانا کھالیتے تھے اور گوشت بھی بکڑے کا ھوا کرتا تھا پوری رات کھارا در پہ رونق ھوتی اس طرح بوری بازار اور صدر کے علاقے میں بل کل پرسکون خریداری کرتے اتنا خاص رش نھیں ھوتا تھا جہاں پہ پریڈز سینما تھا وھاں فلم دیکھنے جاتے تو سن سان سی جگہ لگتی تھی کیٹل سینما کی گلی سے آگے پرایڈز سینما کے آگے بازار تو تھی پر رش نہ ھونے کے برابر اور تاجر سارے مقامی ھوا کرتے تھے میمن بوری ھمارے اردو بولنے والے بھای گجراتی خواجہ اور دیگر پر وہ سب مقام ھی ھوا کرتے تھے ھوٹل زیادہ ایرانی اور ملباڑی کی ھوا کرتی تھی پختون بھایوں کی بھی ھوٹل تھی پر بہت کم تھی پر ایرانی ھوٹل کی سبز چاے زبردست انکی ھوٹلوں میں صفای کا خاص خیال رکھا جاتا تھا پر کراچی میں زیادہ رش لیمارکیٹ میٹھادر اور کھارا در کی جو مارکیٹ تھی یہاں رش زیادہ ھوا کرتا تھا اسکی مین وجہ لیاری کیماڑی بابابھٹ ابراھیم حیدری سندھ کے ساحلی علاقہ کیٹی بندر کھارو چھانڑ کے تاجر بھی یہی سے خریداری کرنے آتے تھے مجھے یاد ھے شیریں جناح کالونی مسان روڈ سے کلفٹن تک میدان ھی میدان 1973 تک یہاں کچھ بھی نہ تھا کراچی میں امن تھا سکون تھا بھای چارا تھا ٹھیک ھے سیاسی و نظریاتی اختلاف ھوتے رھتے تھے پر اس قدر لسانیت نھیں تھی بھٹو کے بعد جنرل ضیاالحق نے جب مارشلا لگایا وھی سے کراچی کی صورتحال بگڑتی گیی ایم کیو ایم جیسی تنظیم کی بنیاد ڈالی نسلی فسادات کا آغاز وھی سے شروع ھوے مزھبی بنیاد پرستی اور دیگر مسلک کے لوگوں میں مزھبی بیس ایک دوسروں کے خلاف جلسے جلوس جس ایک دوسرے کے خلاف تقریر کرنا عام سہ بات تھی میں خد بہت سے ایسے جلسوں میں جایا کرتا تھا جو بریلوی علماے کرام کا خطاب سن نے دیوبندی علما میں مولانا عبدلمجید ندیم صاحب خوب بریلوی حضرات پہ تنقید کرتے تو بریلوی کے علما پنجاب سے انکے خلاف تقریر کرنے آتے جیسے مولانا عبدلتواب اچھڑوی وھا خوب نوک چوک ھوتی تھی جلسوں میں بہت وقت تک یہ سلسلہ چلا کلاشن کوف اور ھیرون کلچر اور افغانیوں کی یلغار جو آج تک روکنے کا نام نھیں لے رھے یہ سب جنرل ضیا الحق کے کارنامہ ھیں جسے سندھ کے لوگ آج تک اس عزاب میں پھنسے ھوے ھیں بس یہی سے کراچی چینچ ھونا شروع ھوگیا کراچی میں باھر کے لوگوں نے آستہ آستہ ٹرنسپورٹ ھوٹل کپڑے کے کاروبار سے ھوٹل تک کراچی میں زیادہ لوگ غیر مقامی ھیں دوسری بات ان غیر مقامی لوگوں نے شناختی کارڈ بھی آسانی سے بنا لیے اور اسے روکنے کے لیے کوی سسٹم نھیں سندھی تو عقلیت میں ھو رھے ھیں پر آب اردو بولنے والے تو کراچی میں تیزی کے ساتھ عقلیت میں تبدیل ھورھے ھیں انکا رویہ بھی سندھ کے غریب مزدوروں کے ساتھ ٹھیک نھیں اور کہتے ھیں یہ کراچی کیوں آتے ھیں کراچی تو ھے ھی سندھیوں کا آج میں سمجھتا ھوں سنجیدہ طبقہ اردو بولنے والے ھمارے بھای وہ سمجھتے ھیں کہ سندھ میں بسنے والے اردو بولنے والے نیے سندھی اور سندھی بھای دونوں کو مل کر ھی محبت امن اور اتحاد کی ضرورت ھے اور یہ حقیقت بھی ھے ھمارے پختون بھای جو مزدوری کرنے آے ھیں کہی عرسے سے کراچی میں رھتے ھیں وہ تو بہت سے علاقوں میں گل مل گیے پر یہ افغنستان سے روزانہ ھزاروں کی تعدات میں غیر قانونی اب بھی آرھے ھیں اس طرح تو صورتحال خطرناک ھو جایگی وفاقی حکومت اور سندھ حکومت اس سلسلے میں کوی قانونی قدم اوٹھاے آج کا کراچی تیزی سے بدل رھا ھے یو محسوس ھوتا ھے کہ ھم کراچی نھیں کسی اور صوبے میں آگیے ھیں کراچی کے مقامی اور قدیمی لوگ اور اردو بولنے والے سندھی میمن گجراتی بلوچ پختون کچھی ان سب کو سوچنے کی ضرورت ھے اور غیرقانونی یلغار کو روکنے میں ان سب کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ھے تاکہ ھماری نسلیں امن اور سکون سے کراچی میں رھے سکیں
