میری کہانی میری زبانی – قسط نمبر56

سمندر میں بیتے دنوں کی یادیں
طالب ڪڇي
سمندر کی اپنی دنیا ھے اور یہ حقیقت میں دنیا کا سب سے مشکل اور خطرناک کام سمندر میں ماھیگری کا ھے دوستوں میں آپ کو یہ بتانا چاھتا ھوں کہ ھم ماھیگر سمندر میں 15 دن کیسے رھتے ھیں اور کیسے فشنگ کرتے ھیں ھماری ایکٹیوٹی کیا ھوتی ھے ویسے میں 12 سال کی عمر سے فشنگ سے وابستہ رھا ھوں بس دو کلاس پڑ کر اسکول چھوڑ دی تھی اور فشنگ اور سمندر ھی میرا گھر تھا مسلن چالیس سالوں میں گھر میں کم اور سمندر میں عمر زیادہ گزری 15 دن سمندر میں گزارتے اور تین سے چار دن گھر پہ رھتے پر میری زندگی کے وہ دن کبھی نھیں بھول سکتا جب سمندر میں کتابوں کا مطالہ کیا کرتا تھا شروع میں مزھبی کتابیں اور نسیم حجازی کی ناولیں خوب پڑا کرتا تھا بعد ترقی پسند مصنیف کی کتابیں بھی بہت شوق سے پڑنے لگا اور بہت کچھ سیکھنے کا اور سمجھنے کا وقت سمندر میں ملا بار حال ویسے سمندر ایک وصی موضع ھے اس پہ میں دیگر قسطوں پہ بہت کچھ لکھ چکا ھوں اور مزید بھی لکھوں گا پر آج میں آپ دوستوں کو سمندر میں میں نے یا دیگر ماھیگر کیسے زندگی گزارتے ھیں میں جس لانچ میں تھا سفینہ ایاز جس کے ناخدا تھے حاجی ابو بکر پر میں اس لانچ سے پہلے بھی انکے ساتھ تھا جب وہ بل کل نوجوان ناخدا تھا میرے زندگی میں ایسا چھوٹی عمر اور مکمل ناخدا میں نے نھیں دیکھا بہت سمندر کی سوج بوج اور ھر لہاز سے اسے مکمل ناخدا کہے سکتے ھیں کوی بیس سال عمر ھوگی اس وقت ناخدا حاجی بکر کی پر اب وہ خد لانچوں کے مالک ھے پر اب بھی وہ سمندر میں اپنی زاتی لانچ میں فشنگ کرنے جاتے ھیں میرا چھوٹا بیٹا عابدعلی انکے ساتھ ھے بارحال ابرا ھیم حیدری کی جیٹی سے لانچ کی رسیاں کھول کر لانچ فشنگ کے لیے گہرے سمندر میں جانے کے لیے رواں دواں انجن کا شور سمندر کی چیرتی ھوی لانچ سفر کی جانب اپنی منظل کی جانب رخ اور تمام خلاصی ۔ مزدور۔ جال کو اور رسیوں کو جال میں باندتے ھوے مصروف اس وقت ابھی وینچ سسٹم نھیں آیا تھا سب ھاتھوں سے جال کو کھینچتے تھے لانچ کا باولچی تمام برتنوں کو صاف کرنے میں مصروف اور دوپہر کا کھانا دال چاول بنا رھا ھے اور خلاصی آستہ آستہ لانچ کے اندر نیچے سونے کے لیے ایک ایک کرتے سب چلے جاتے صرف ناخدا اسٹرینگ پہ بیٹھا ھوتا اور باولچی خانہ بنانے میں مصروف اصل میں کراچی شہر کی آب و ھوا اور سمندر کی آب و ھوا میں بڑا فرق ھوتا ھے یہی سبب ھے جب ھم شہر سے سمندر میں داخل ھوتے وقت ھلکہ ھلکہ سردرد اور مونہ کا زایقہ عجیب سہ ھوجاتا ھے خراب سہ موڈ جب آج مضمون لکھنے سے پہلے میں نے ایک ناخدا عبداللہ جو میرا پروسی بھی ھے اس منظر کی بات کی تو اس نے کہا ھاں بل کل ایسا ھی ھوتا تھا جب کھانا تیار ھوجاتا تو باولچی تمام خلاصیوں کو آواز دیتا کہ آو کھانا کھالو تو مشکل سے 20افراد میں سے دس لوگ اوپر آکر دو دو چار چار نوالے کھا کر پھر سوجاتے اگر شام سے پہلے گجا جال پھینک کر مچھلی کا سالن مل جاے تو ٹھیک ورنہ رات کو سبزی یا مرغی بھی مزا نھیں دیتی اگر مچھلی مل گیی تو یو محسوس ھوتا جیسے بیمار شفا پا گیا مقامی ماھیگر رات کو فشنگ نھیں کرتے تھے رات کو آرام کرتے خد بھی آرام کرتے اور سمندر کو بھی آرام دیتے رات کا کھانابہت پر تکلف ھوتا ھمارا ناخدا بہت شوقین تھا تازہ جھینگے کا سالن اور تازہ مچھلی کی فرای وھاں کیا بات سارا دن جال کھینچنا اور کام کرنے کے بعد بھوک بھی بہت لگتی تھی کھانا کھانے کے بعد تمام خلاصی خوب کچیری کرتے کوی فلمی دنیا کی باتیں کوی کرکٹ تو کوی گانے گاتے یا ملکی سیاست پہ حال حوال کرتے آٹھ بجے رات بی بی سی ریڈیو لازمی سنتے اور مزے کی نیند میں سو جاتے میری عادت تھی میں ھمیشہ اوپر سویا کرتا تھا کیبین پہ چاھے گرمی ھو چاھے کتنی سردی ھو میں زیادہ اوپر ھی سوتا صبح سویرے باولچی چاے بناتا چاے بنا کر آواز دیتا کہ اوٹھ جاو تمام لوگ اپنے اپنے بستر کو لپیٹ کر اوپر باتھ روم کی طرف آپکو پتا تا چلو لانچ کا باتھ روم کیسا ھوتا ھے لانچ کے بل کل پیچھے ایک دوفٹ گہرائ سی جگہ جس پہ بیٹھ کر جسم کا باقی حصہ کھلا پر آپ سے سب باتیں بھی کر رھے ھوتے ھیں اور اپنی اپنی باری کا انتظار بھی اصل میں ھم سب کی ایک جو عادت سی بن جاتی ھے اور مجبوری بھی ورنہ نیے بندے کے لیے تو یہ مسالہ عزاب سے کم نھیں بارحال سب مونہ ھاتھ دھوکر چاے پی کر لانچ کا نگر اوٹھانے میں مصروف لانچ نیچے اورپر ھچکولےکھا رھی ھے پر نگر اوٹھا کر سمندر میں گجا جال پھینک کر دو سے تین گھنٹے لانچ اس گنچے کو سمندر میں گمارھے ھیں اور مچھلی جال کے اندر جمع ھورھی ھے اب یہ دو سے تین گھنٹے میرے لیے بہت قیمتی ھوتے تھے جب کے باقی لوگ تاش کے پتوں سے کھیلنے میں مصروف ھوتے میں ھر ٹرپ سمندر جاتے ھوے کم سے کم چار کتابیں اپنے ساتھ لیجاتا اور فارغ وقت میں اس کا مطالہ کرتا رھتا میں لانچ میں سرنگ تھا سرنگ کا مطلب ھے ناخدا کے بعد ساری زمیداری وہ نباتا ھے مچھلی کو برف میں رکھنا یا جال لانچ کے انجن کے پنکھے میں پھنس جاے چاھے گرمی ھو چاھے سردی ھو چاھے بارش ھو ھوا ھو یہ کام اسکی زمیداری میں شامل ھوتا ھےبہت مشکل کام تھا بس اسے دوسرے خلاصیوں کے مقبالے میں ادھا حصہ زیادہ ملتا ھے ھاں تو میں بات کر رھا تھا مطالہ کی جیسے مجھے وقت ملتا میں کتاب اوٹھا کر مطالہ میں مصروف ھوجاتا ھمارا ناخدا حاجی ابوبکر وہ ویسے بھی جال گجا کو سمندر میں گماتے گماتے بور ھوجایا کرتے تھے اسٹرینگ میں بیٹھے بیٹھے حالکہ وہ ان پڑھ تھے مجھے آواز دیتے طالب یار ادھر آو مجھے بھی سناو تم کیا پڑتے ھو اور میں نے اسے جب پہلی بار سبط حسن کی ماضی کے مزار پڑھ کر سنائی تو اسے بہت اچھا لگا ویسے وہ سمجھدار تھا دو گھنٹے میں دس سے باڑہ صفہ میں بہت اچھے انداز میں پڑھ کے سناتا اسکا بھی وقت گزجاتا اور میں بھی اپنا مطالہ کرتا اور مجھے بھی ایک ھم خیال مل گیا تھااب جال اوٹھا کر جلدی جلدی مچھلی صاف کرکے مچھلی اور جھنگے کو برف لگا کر جیسے برف کی ٹانکی سے اوپر آتا مجھے ناخدا آواز دیتا طالب جلدی کتاب لے آو اور پھر میں کتاب پڑھنے شروع ھوجاتا اور وہ اس کتاب میں بہت سی نیی باتیں جوپہلے اس نے نھیں سونی تھی اسکی دلچسپی بڑنے لگی اور وہ بہت سی باتوں سے ایگری ھونے لگا اب دوسرے خلاصی تھے آستہ آستہ دو چار اور بھی ھماری ٹیم میں شامل ھوتے گیے جب رات ھوتی اور لانچ کا لنگر پھنک دیتے رات کا کھانا کھانے کے بعد پھر رات کو کیبن میں بلف جلا کر کتاب پڑتا اور دیگر ساتھیوں کو دیر تک سناتا ھاں پر رمضان کے مہنے میں زیادہ رسول کی سیرت کی کتابیں یا مزھبی کتابوں کا مطالہ کرتے کیوں کہ میں خد روزے میں ھوتا اور آج بھی روزے رکھتا ھوں اللہ گواہ ھے میں دس سال کی عمر سے روزہ رکھتا ھوں اب ستر سال تک مجھے یاد نھیں کہ میں نے کبھی روزہ چھوڑا ھو میں لانچ میں کیسے روزے رکھا کرتا جب رمضان کے مہنے میں رات کو جنوری یافروری کے مہنے میں گڈانی جھینگے کی سیزن ھوا کرتی تھی وہ جھینگے رات میں ھوا کرتے تھے دن کو ایک دانہ بھی نھیں ملتا تھا رات 10 بجے جال اوٹھا کر دوبارہ سمندر میں پھینک دیتے اور ناخدا مجھے لانچ کا اسٹیرنگ دیتے میں تین گھنٹے کے بعد ایک بجے جال کے لیے سب کو اوٹھاتا اور سحری کی تیاری باولچی ایک بجے سے مصروف ھوتا اب لوگ کام میں مصروف میں اور میرے ساتھ دو اور بندے جو میرے ساتھ تین گھنٹے جاگ کر ڈیوٹی دیتے وہ سونے کے لیے چلے جاتے پر میں چاھے ایک بجا ھو چاھے دو بجیں ھوں میں جو بھی سحری کے لیے تیار ھوتا روزہ رکھ کے اسی وقت پانی پی کر روزہ بند کرکے سو جاتا یہ انتظار نہ کرتا کہ ازان کے وقت پانی پیوں تاکہ مجھے پیاس نہ لگے اور پھر روزے کی حالت میں سارا دن ناخدا اور دیگر دوستوں کو کتاب پڑھ پڑھ کے سناتا آج اس بات کو کم سے کم تیس سال ھوگیے ھیں ھمارے ساتھ ایک خلاصی تھا یوسف وہ آج بھی لوگوں کہتا ھے میں نے بہت روزے دار دیکھے ھیں پر طالب کو دیکھ کر یہ محسوس نھیں ھوگا کہ یہ روزے سے ھے یار رات دو بجے روزہ بند کرنا اور لانچ میں کام کرنا اور سارہ دن کتاب زور زور سے پڑھ کر سب کو سنانا اور یہ بات یوسف دوستوں سے ھمیشہ کہتا ھے یہ تو سف کی راے ھیں بس ھم گناہ گار ھیں پر سچ تو یہ ھے کہ یہ سب آپ کے زھن پہ ھے باقی کچھ نھیں ھاں مجھے پوری زندگی میں یاد نھیں کہ روزے کی حالت میں بیمار ھوا ھوں آج بھی میں نماز نھیں پڑتا کبھی پڑ بھی لیتا ھوں پر روزے نھیں چھوڑتا یہ میرا اور اللہ کا معاملہ ھے وہ قبول کرتا ھے کہ نھیں مرحوم محمدعلی شاہ مجھے مزاق میں کہتے طالب اللہ تمہارے دل میں کہی نہ کہی چھپا بیٹھا ھے یہ جملہ خاص رمضان کے مہنے میں کہتا اسے یہ یقین تھا کہ یہ روزہ مر جایگا نھیں چھوڑتا بس وھی توھے جو نظام ہستی چلا رھا ھے وھی خدا ھے بارحال میں جب ناخدا کو ماضی کے مزار اور موسی سے مارکس تک سناتا پڑھ کر تو وہ کہتے یار اس دنیا میں انسانوں کے حق کے لیے کتنے لوگوں نے کیا کیا قربانی دی جب کارل ماکس کی قربانیاں اور اس نے کس طرح تکلفیں جیلی تو وہ بہت متاثر ھوتا سید سبط حسن ۔ علی عباس جلال پوری ۔ ڈاکٹر مبارک علی زبیر رانا اور دیگر ترقی پسند ادیبوں کا خوب مطالہ کیا سمندر میں ماھیگری کے دوران پر سمندر میں بھوک خوب لگتی ھے صبح کا نشتہ میں کبھی پکوڑے اسکے ساتھ اچاڑ اور فراٹھے کبھی سبزی یا چنے تو کبھی مچھلی فرای دوپہر کو مچھلی کا سالن اور چاول یا بریانی جھینگے کی شام میں روٹی اور مچھلی کا سالن یہ 22 سال پہلے کی باتیں ھیں میرے تین بیٹے ھیں اور وہ سمندر میں مچھلی کے شکار پہ جاتے ھیں میں اب حال حوال کرتا ھوں کہ بیٹا اب لانچوں میں کیا صورتحال ھے کھانے پینے کی تو کہتے ھیں اب تو بہت راشن لے جاتے ھیں کم سے کم ایک لاکھ روپے کا صرف راشن ھوتاھے جس میں سبزی مرغی دھی گولڈ ڈرینگ انڈے کی پوری پیٹی اور فروٹ وغیرہ پر حقیقت میں بہت کچھ بدل چکا ھے اب تو بہت بڑی بڑی لانچیں بن رھی ھیں جس پہ کم سے کم دو کڑور کی لاگت آتی ھے کچھ دن پہلے میرے بہت عزیز دوست حاجی محمد اسٹیل جس کی نیی لانچ تعمیر ھورھی تھی ابراھیم حیدری میں مجھے وہ دیکھانے لے گیے تو میں حیران رھے گیا ھر سہولت موجود تھی میرے خیال میں اب بہت کچھ بدل چکا ھے جو پہلے جال استمال ھوتے تھے ریشم کے انکی جگہ پلاسٹک کے جال استمال ھونے لگے ھیں تیل مہنگا برف مہنگی اور فشنگ بہت سے مساحل میں گڑا ھوا ھے ماھیگر ۔ ھم اپنے وقت اور اسکی خوشحالی کو یاد کرتے ھیں پر آج بھی سوچتا ھوں ماھیگر آج جس عزاب میں ھیں اس عزاب سے کیسے نکلیں گیں اس کے لیے بہت سوچنے کی ضرورت ھے ھاں مگر سمندر کی وہ شبنم سی پور راتیں جب گرمیوں میں سوتے ھلکی ھلکی لہروں میں جھولتی کشتی یومحسوس ھوتا جیسے بچہ کو ماں لوریاں دیگر سلا رھی ھو جب تھکے ھوے میٹھی نیند سے اوٹھتے تو پورا بستر شبنم سے گھیلا ھوجاتا اور اسے لانچ پہ دھوپ پہ روز سوکھانا وہ دن بھی یاد ھے جب رات میں بہت سردی اور کچھ ھوا بھی تیز ماھیگر گہری نیند میں سویا ھوا ھے اور اسے جال اوٹھانے کے لیے آوز دے کہ جلدی جلدی اوٹھ جاو جال اوٹھانا ھے پھر دو دو سو میٹر لمبی رسیوں میں تیس میٹر گہرے سمندر کی زمین پہ رگڑ کھاتا گجو جال کو ھاتھوں سے کھینچتے برف جیسا سمندر کا پانی اور پانچ سے دس فٹ سمندر میں اوٹھتی لہروں میں جھولتی کشتی ۔ لانچ ۔ میں باولچی جسے ماھیگر بنڈاری کہتے ھیں بیس سے تیس افراد کے لیے ایسے تیز سمندر میں کھانا بنانا بہت مشکل ھوتا کیوں کہ میں نے بھی لانچ میں باولچی کا بھی کام کیا مجھے یاد ھے ایک بار نفیسہ شاہ جو صابق وزرے عالی قایم علی شاہ کی بیٹی ھے اور خد بھی قومی اسمبلی کی میمبر رھے چکی ھیں اسے بھی جھینگے کی کڑای بنا کے کھلایا ھے جب وہ ابراھیم حیدری آی تھی اسکی تفصیل میں نے پہلے کالم میں دے چکا ھوں بار حال میں نے ماھیگری کے تمام شوبوں میں کام کیا خلاصی۔ لیبر۔ سرنگ۔مطلب ٹنڈیل۔ ڈریوڑ انجن بھی چلایا اور بہت اچھا ڈریوڑ رھا اور ناخدا بھی رھا سمندر میں گزرے دن ھی میری یادوں کا خزانہ ھے میں سمجھتا ھوں اگر ماھی گیروں کی زندگی پر کوی فلم بنای جاے اس جدید دور میں اور یہ بہت محنت طلب کام جس پہ سرمایہ بھی لگایا جاے تو میں سمجھتا ھوں ایک تایخی فلم بن سکتی ھے جس کی پوری منظر کشی سمندر کی بے رحم موجوں میں کی جاے بار حال اس بات پہ ماضی کی اک فلم سمندر کا یہ گیت یاد آگیا۔ ساتھی تیرا میرا ساتھی ھے لہراتا سمندر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں