میری کہانی میری زبانی – قسط نمبر 57

کیاماڑی کی وہ خوفناک راتیں
طالب ڪڇي
میرے خیال میں کوی 1964 کی بات ھے جب میں بہت چھوٹا تھا کیماڑی کی آبادی اتنی زیادہ نھیں تھی شیریں جناح کالونی کا وجود ھی نھیں تھا زیادہ آبادی کچھی سندھی مہانے ماھیگر کچھ پنجابی بنگالی کوکنی برادری کے لوگ اور بختون جو زیادہ مسان روڈ اور چارنل کے پاس رھتے تھے باقی شیدی جو موسی غازی اور عابد غازی جو پاکستان کے بہت بڑے فٹ بالر تھے ویسے وہ بھی کچھی تھے اور وہ گجراتی بولا کرتے تھے اپنے گھروں میں انکے برادری کے شیدی kPT. فٹبال گرونڈ کے ساتھ والی گلی میں رھتے تھے KPT گرونڈ سے پہلے بدر سینما تھا بدر سینما کے سامنے ایک ھوٹل ھوا کرتی تھی اسکے ساتھ ایک چھوٹی سی میٹھای کی دوکان ھوا کرتی تھی جسکی برفی مجھے بہت پسند تھی دو آنے کی اکسر میں خریدتا تھا یا میرے والد فشنگ سے آتے تو وہ میرے لیے وہ برفی ضرور لاتے میں سچ کہتا ھوں جب والد صاحب گھر میں داخل ھوتے تو برفی کی خوشبو دل میں محسوس ھوتی کتنی خالیص ھوا کرتی تھی میرے خیال میں تین روپے کلو تھی میٹھای اور بکڑے کا گوشت چار روپے کلو ھوا کرتا تھا میں اکسر جمعہ والے دن پانجری پاڑے کے پاس گوشت کی دوکان تھی بارحال وقت اور حالات بہت بدل چکے ھیں اسی زمانے میں میرے والد صاحب دوبئ گیے ھوے تھے کیوں کے ھمارے کچھیوں کے لیے دبئ جانا کوی مسلہ نہ تھا خاص کر جزیرہ بابا بھٹ کے لوگوں کے لیے یہ ایک الگ موضع ھے اس وقت KPT کی دو بلڈینگ تھی باقی KPT گرونڈ کے گیٹ کے سامنے سفید چاندی جیسی ریت تھی اس سے یہ اندازہ ھوتا ھے کہ کسی زمانے میں یہاں سمندر تھا ھم اکسر اس ملایم ریت میں کھیلنے آیا کرتے تھے اور عید کے دنوں میں یہاں جھولے لگاے جاتے تھے عید سے آٹھ دن پہلے ھی بچوں کا رش لگا رھتا کمبلے کے اس طرف جہاں اب حزب اللہ مسجد ھے یہ جگہ خالی تھی اسکے پاس میرے خیال میں پورے کراچی کا کچرا جلایا جاتا تھا اسکے ساتھ ایک بہت بڑی میل فیکٹری تھی جس میں خاص کر لوھے کی خلیاں بنای جاتی تھی اور اسی جگہ سے بڑے بڑے باتھ روم بنے ھوے تھے جو کیماڑی کی جمع مسجد تک تھے ان باتھ روموں کے ساتھ صرف سمندر صاف شفاف تھا جس میں خواتین کے الگ اور جینس کے الگ الگ تھے ایک ایک باتھ روم میں پندہ لوگ بیٹھ سکتے تھے اور جتنے KPT کے کواٹر تھے یامکان تھے اس میں KPT کے ملازم رھتے تھے پر کسی گھر میں باتھ روم نھیں تھا سب کیا خواتین کیا مرد سب ھاتھ میں لوٹا پانی کا لیے وھی جایا کرتے احترام تھا ایک دوسرے کا بار حال کیوں کہ ھم بچے تھے اور پورا کیماڑی ایک محلے جیسا لگتا تھا تو ھم بچے جہاں دل کرے بلا خوف خطر گوما کرتے ایک دن یہ بات مشہور ھوگیئ کہ کسی نے رات دو بھینسوں کو زبا کردیا ھے ھم جب کملے کے پاس پونچے تو دو بھینس زباں پڑی تھی گلے سے خون اب بھی تازہ تھا لوگ آپس میں باتیں کر رھے تھے کہ یار کیوں زباں کیا ھے دوسرے دن KPT فٹبال گرونڈ کے پاس دو بکڑے زباں اب لوگ پریشان کہ یہ مسلہ کیا ھے تیسرے دن تھوڑے سے فاصلہ پہ گائیں زباں اب تو خوف ھونے لگا اور ھم محلے کے کافی بچے یہ صبح صبح دیکھنے نکل جاتے کہ چلو آج بھی بکڑے کاٹنے والا کسی جانور کو کاٹ گیا ھوگا اب KpT بلڈنگ کے پاس دو بکڑے کٹے ھوے پڑے تھے اور اس جانوروں کے قاتل نے اپنی پانچ انگلیاں خون میں بیگا کر دیوار پہ لگای اور اس پہ لکھا کہ اب جانوروں کی طرح اب لوگوں کو بھی کاٹوں گا اب ھر طرف خوف ھی خوف میرے خیال میں اس وقت ٹی وی بھی کراچی میں نھیں تھا صرف ریڈیو اور اخبار تھے اور اخباروں میں سنسنی خیز خبریں روز لگنے لگی کہ جانوروں کے قاتل کا سرغ لگانے میں پولیس اور ریاست مجرم کو پکرنے میں ناکام یہ سلسلہ دو ماہ تک چلتا رھا پولیس لاکھ جتن کرنے کے باوجود ناکام بس شام ھوتے ھی سناٹا چھاجاتا مجھے یادھے ھمارے محلے میں پیٹھانوں کے ڈیرے تھے مطلب بیٹھک وہ سب باھر چاڑپایوں پہ سویا کرتے تھے اب وہ اندر سونے لگے صبح شام اسی قاتل کا چرچہ اس وقت میرے گھر میں ایک دھنبا تھا جو میرے والد نے جب وہ چھوٹا بچہ تھا دھنبا تو 15 روپے میں لایا تھا اور میں دھنبے کے بچے کو اپنے ساتھ سلاتا تھا کیوں کہ ایک تو اسکے بال ملایم تھے دوسرا وہ بہت چھوٹا تھا میں اور مجھسے میری چھوٹی بہین اس دھنبے سے بہت پیار کرتے تھے اب وہ دھنبا بڑا ھوگیا تھا والد صاحب دبیئ میں تھے ایک دن صبح امی نے دیکھا تو ھمارے آنگن سے دھنبا غایب تھا اور وہ روتی ھوی چلانے لگی ھاے میرا دھنبا وہ جانور کاٹنے والا لے گیا اب محلے کی ساری عورتیں ھمارے گھر جمع ھوگیئ کیوں کہ ھر گھر کا موضع یہی بکڑے کاٹنے والے کا تھا اصل میں میرے گھر پہ کبوتروں کا ایک پنجرہ یا مکان کہے سکتے ھیں جو 8 فٹ لمبا اور چھے فٹ چورا تھا اور میر خیال میں تیس سے پچاس کے قریب اس میں کبوتر تھے مختلف نسلوں کے تو امی تو رو رھی تھی پر کسی خاتون نے کہا ارے مریم بہین یہ آپ کا دھنبا تو اس کبوتر کے پنجرے کے نیچے بیٹھا ھوا ھے امی نے آنسو پونچتے ھوے کہا یہ موا کہا چھپا بیٹھا ھے ھم بھی خوش تھے کہ دھنبا ھمارا سہی سلامت تھا ابو نے دادی کے لیے قربانی کے لیے بہت پیار سے پالا تھا دھنبے کو مجھے یاد ھے جب اسکی قربانی ھوی تو میں اور میری بہین کیی دن روتے رھے اور ھم نے اس کا گوشت نھیں کھایا بلکہ امی اور ابو نے بھی نھیں کھایا وہ اکسر یہی کہتے کہ اولاد کی طرح پالا تھا بار حال وہ جانوروں کا قاتل کون تھا نہ پولیس اسے تلاش کر سکی نہ ھمارے ادارے اس زمانے میں نوجوان سکوں سے جویے کھیلتے تھے تو کمبلے کے پاس ھماری کچھی برادری کا ایک نوجوان بعد میں مجھے بہت سالوں کے بعد بتایا وہ روز جانوروں کو کا ٹ کر ھمارے ساتھ جوا کھیلتا اور ھم سب لڑکوں کو کہتا کہ یارآج رات اس جانور کے قاتل کو پکڑینگے ھمارے تو وھم گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ جانوروں کا قتل ھے جب پکڑا گیا تو ھم حیران ھوے کہ دیکھوں حرامی روز ھمیں کہتا کہ آج ھم اسکو پکرینگے بارحال اسے کیسے پکڑا یہ بندہ ایک ھوٹل جو صالح خان کے نام سے مشہور تھی میں نے بھی سیٹھ صالح خان کو دیکھا تھا لمبا قد لمبی مونچھے جس پر لال مہندی لگی سر پر شملے والی پگھڑی روب دار چہرا یہ بندہ اسکی ھوٹل میں ملازم تھا اسے پہ شک ھوا کہ میری ھوٹل میں فلاح بندہ گوشت کا خون چاٹتا تھا کہی وہ تو نھیں صالح خان اسکے بیچھے لگ گیا ایک دن وہ دوپہر کے وقت وہ جو باتھ روم بنے تھے اس میں بیٹھ کر چھوڑی تیز کر رھا تھا اور وہ چھوڑی کو بھی وھی چھپاتا تھا جیسے وہ چھوڑی تیز کرنے میں مصروف تھا سیٹ صالح خان نے پیچھے سے دبوچ لیا او خانہ خراب کا بچہ تم نے پورے کیماڑی کو اور کراچی کو پریشان کیا ھے وہ برا کوی بدماش تو تھا نھیں سادہ سہ بندہ چھوٹے قد کا کوی یقین کرنے کو تیار نہ تھا کہ یہ کیسے بھینس کو زباں کریگا پورے کیماڑی میں آگ کی طرح شور پھیل گیا کہ جانوروں کا قاتل پکڑا گیا ھے اب پولیس اور دیگر ادارے آگیے اور کہا کہ تم اکیلے بھینس کو کیسے زباں کرتے ھو اسے بھینس کے باڑے کے پاس پولیس والے لے گیے عوام کا ھجوم تھا ایک بھینس کو اس نے دونوں سینگوں سے پکڑ کر زمین پر پھٹک دیا اور کہا ایسے گرا کر زباں کرتا تھا تو پولیس نے کہا کہ پر تم کیوں ایسا کرتے تھے تو اس نے کہا میں انکے گلے سے جو گرم خون نکلتا تھا وہ میں پیتا تھا یہ میرا نشہ ھوگیا تھا اور پولیس اسے جیل لے گیی پر کیوں کے ھم ابھی بچے تھے پر یہ بات بڑوں سے سنتے تھے کہ سرکار نے اسے دیکھ نے کے لیے جیل میں چار آنہ ٹکیٹ رکھی ھے وہ تین سال جیل میں رھا دو بار جب میں بڑا ھوا تو اس سے ھاتھ ملا چکا تھا اور مجھسے جو میرے بڑے دوست حسن علی نے اسکے مونہ پہ کہا کہ یہ ھے بکڑے کاٹنے والا تو وہ معصومانہ مسکرایٹ سے حسن علی کو کہا یار وہ تو بہت پرانی بات ھوگیی میں سچ کہتا ھوں وہ دوستوں کا دوست بڑا سادہ سا بندہ تھا نہ کسی سے جگڑا نہ کچھ پر اس نے دو ماہ پورے کیماڑی کو حلا کے رکھ دیا تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں