وہ آواز جو گزشتہ چار دہائی تک جابروں او رفرعونوں کو للکارتی رہی وہ۔ آواز جو مظلوموں، محکوموں اور محنت کشوں کی ترجمان بنی رہی۔ وہ آواز کہ جسے دبانے، جھکانے اور خریدنے کی خواہش ہر آمروقت کے دل میں مچل مچل کر دم توڑ گئی۔
وہ سُریلی، میٹھی اور دل سوز آواز وطن عزیز کے کروڑوں عوام کو یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئی
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
28 فروری 1928ء کو میانی افغاناں، ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے حبیب احمد نے بچپن انتہائی غربت اور تنگدستی میں گزارا۔ ہجرت کے بعد جب حبیب احمد اپنے خاندان کے ساتھ مملکت خداداد پاکستان میں داخل ہوئے تو مسائل کا ایک سمندر تھا جو ان کا منتظر تھا۔ جوانی کی دہلیز پر جب اس آشفتہ سرچاک گریباں نے قدم رکھا تو اس کے لئے دو راستے تھے ، ایک تو وہی گلپوش راہوں کا کہ جن پر چل کر حال خوشحال اور مستقبل تابناک ہوتا ہے۔ آسائشیں اور خلعتیں ملتی ہیں، گلوں میں نوٹوں کے ہار اور پلاٹ ملتے ہیں اور دوسرا وہی کانٹوں بھرا کہ جس میں پیر لہولہان ہوتے ہیں۔ گھر ویران ہوتے ہیں، تنگ و تاریک کال کوٹھریاں مقدر بنتی ہیں۔
حبیب احمد نے جو ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت کرتے ہوئے حبیب جالب بن چکے تھے ۔یہ کہتے ہوئے دوسرا راستہ اختیار کیا کہ:
بہت مہرباں تھیں وہ گلپوش راہیں
مگر ہم انہیں مہرباں چھوڑ آئے
بہت دور آ گئے ہم اس گلی سے
بہت دور وہ آستاں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
حبیب جالب کی آواز میں بڑا سوز و گداز تھا ۔ہندوستان کے شہر گوالیار کے ایک مشاعرے میں فراق گورکھپوری نے حبیب جالب کی غزل ترنم سے سنی تو انہیں اٹھ کر گلے لگاتے ہوئے کہا کہ ’’میرا بائی کا سوز اور سورداس کا نغمہ جب یکجا ہو جائیں تو اسے حبیب جالب کہتے ہیں۔‘‘ حبیب جالب جب اپنی پُر سوز آواز میں اپنے بڑے بڑے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اشعار پڑھتے تو جہاں ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں وہیں سننے والوں کی آنکھیں بھی بھیگ جاتیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
ہم بھی گئے تھے جی بہلانے اشک بہا کر آئے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
پچاس کی دہائی کا دورو طن عزیز میں سیاسی اعتبار سے بڑا ہنگامہ خیز مگر ادبی لحاظ سے بڑا سنہری تھا۔ جوشؔ ملیح آبادی ، فراقؔگورکھپوری، جگرؔ مراد آبادی اور فیض احمد فیضؔ سے شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہونے والے نوجوان شعراء کی ایک پوری کھیپ تھی جو رومان اور انقلاب کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھی مگر یہ دور بہت مختصر رہا۔ راولپنڈی سازش کیس کی دہشت اور انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی نے ترقی پسند اور جمہوری تحریک کا شیرازہ بکھیر دیا۔ سرکردہ شاعروں اور دانشوروں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور جو باقی رہ گئے وہ مصلحت کی لمبی چادر تان کر سو گئے۔ اکتوبر 1958ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا مارشل لاء اس شان و شوکت سے آیا کہ پورے ملک میں احتجاج کی ایک ہلکی سی لہر بھی نہیں اٹھی۔ انگریز کی تربیت یافتہ افسر شاہی اور باوردی بوٹ شاہی نے وطن عزیز کا سینہ بندوق کے بٹوں سے چھلنی کر دیا۔ چہار جانب موت کا سناٹا چھا گیا، لاکھوں ایکڑ کی زمین رکھنے والے جاگیردار، کروڑوں روپے کے کارخانے رکھنے والے صنعتکار، سیاست دان بولتے بھی کیسے کہ ہر ایک کو اپنی ذات اور جائیداد کی پڑی تھی اس طبقے نے جو کیا ،سو کیا کہ یہ اس کا طبقاتی کردار تھا مگر اہل فکر و نظر نے بھی اپنی آنکھوں پر خاکی عینکیں لگا لیں۔ چاروں جانب ایک ہی صدا گونج رہی تھی۔
صدر ایوب زندہ باد۔ صدر ایوب زندہ باد
کالا باغ، سبز باغ۔ کالا باغ، سبز باغ
اس دور جبر و سیاہ میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ لاہور کی ایک پسماندہ بستی سنت نگر کے ڈیڑھ کمروں کے کرایہ کے مکان میں رہنے والا ایک نوجوان شاعر یہ نعرۂ مستانہ بھی بلند کر سکتا ہے :
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
ایوبی آمریت کے خلاف حبیب جالب کی نظم ’’دستور‘‘ ایک ایسا نعرہ تھی جس نے فوجی آمریت کے بلند و بالا ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ نظم کیا تھی ایک ایسی چیخ تھی کہ جس نے اقتدار کے ایوانوں کے مکینوں کی نیندیں حرام کر دیں ۔ابتداء میں تو ایوبی حکومت نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مگر جب حبیب جالب کے ساتھ لاہور کے موچی گیٹ سے لاکھوں عوام کی یہ آوازیں آنے لگیں کہ:
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
اس سرکشی کا پہلا علاج تو حکمرانوں کا اس لئے کارگر نہیں ہوا کہ حبیب جالب کی کوئی جائیداد نہ تھی جو ضبط کر لینے کے خوف سے اسے خاموش کر دیتی۔ کوئی زمین نہ تھی کہ جس کا پانی بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہو جاتا۔ کوئی ملازمت نہ تھی کہ چھین لی جاتی۔ سو حکمرانوں نے وہی پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کیا کہ اس شاعر شعلہ نوا کو جیل کی سلاخوں میں بند کر دیا مگر یہ وہ شوریدہ سر شاعر تھا کہ جب بھی جیل سے باہر آتا تو مزید شدت سے حکمرانوں کو للکار رہا ہوتا۔
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
حبیب جالب کی نظم ’’دستور‘‘ کی اثر پذیری کا اندازہ یوں لگائیں کہ ایوب خان کے آئین کے خالق اور ممتاز قانون دان میاں منظور قادر نے ایک دن مرحوم ملک غلام جیلانی کو اپنی کوٹھی میں بلایا۔ ملک غلام جیلانی کہتے ہیں کہ جب وہ میاں منظور قادر کی کوٹھی میں پہنچے تو انہوں نے میاں صاحب کو کوٹھی کے لان میں بڑی بے چینی سے ٹہلتے ہوئے پایا۔ ملک صاحب نے میاں منظور قادر سے پوچھا۔ خیریت تو ہے۔ میاں منظور قادر بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگے ’’ملک صاحب اب ہمارا آئین نہیں چلے گا وہ ایک نوجوان شاعر نے نظم لکھ دی ہے۔۔۔
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
ملک صاحب اب ہمارا آئین نہیں چلے گا۔‘‘ ملک غلام جیلانی نے ہنستے ہوئے کہا کہ میاں صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں، کہیں ایک دو نظموں سے بھی آئین ختم ہوئے ہیں۔ میاں منظور قادر اسی جذبات سے بھری آواز میں کہنے لگے ’’ملک صاحب میں نے ٹیپ ریکارڈر پر وہ نظم سنی ہے ،جب یہ نوجوان شاعر نظم پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ لاکھوں لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔ ملک صاحب آپ یقین کریں اب ہمارا آئین نہیں چلے گا۔‘‘ اور پھر یہ بات حقیقت بنی کہ ایوبی آئین اور اس کا بنایا ہوا نظام اپنی موت آپ مر گیا۔
ایوب خان کی فوجی حکومت ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی اور امریکہ بہادر کی سرپرستی سے وجود میں آئی تھی۔ اس کو اقتدار میں لانے میں ایک پوری دہائی لگی تھی۔ اس کے لئے بڑے بڑے دماغوں نے سر جوڑ کر کام کیا تھا۔ اس کو قائم رکھنے کے لئے محض عسکری ہتھیار ہی استعمال نہیں ہوئے بلکہ اہلِ علم و دانش نے بھی اپنے قلم سیاہ کئے تھے۔ یہ سب مل کر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ قائداعظم کے تصور کردہ جمہوری پاکستان کی جگہ ایک باوردی پاکستان۔
مگر آمریت چاہے کتنی ہی مضبوط اور طاقتور کیوںنہ ہو اسے عوامی قوت کے آگے بالآخر سرنگوں ہونا ہی پڑتا ہے۔ یقیناً ایوب خان کی آمریت کو ختم کرنے میں مشرقی پاکستان کی منظم اور مضبوط جمہوری اور نظریاتی تحریک کے علاوہ بھی اور بہت سے عوامل تھے مگر مغربی پاکستان میں فوجی آمریت کے خلاف جو آواز سب سے تیز اور تواتر سے بلند ہو تی رہی وہ حبیب جالب ہی کی تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان ،جو ایوبی حکومت کے خلاف بننے والے اتحاد کے ممتاز رہنما تھے، کہتے تھے کہ ہمارے لاکھوں کے جو جلسے ہوتے تھے۔ ان میں عوام مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھنے اور حبیب جالب کو سننے آتے تھے۔ حبیب جالب کی عوام میں اس مقبولیت نے انہیں شاعر عوام کا درجہ دیا۔
یہ ملیں، یہ جاگیریں، کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں کس کے بل پر جیتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی، کیوں صدائیں آتی ہیں
کاش تم کبھی سمجھو، کاش تم کبھی جانو
دس کروڑ ا نسانو
اے خاموش طوفانو
ایوب خان کی حکومت ختم ہوئی مگر یہ جاتے جاتے قوم پر جنرل یحییٰ خان کو مسلط کر گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی کے کڑک ہال میں نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا جلسہ تھا۔ جالب صاحب مائیک پر آئے تو خیال یہی تھا کہ وہ ایوب خان کے خلاف کوئی نظم سنائیں گے مگر انہوں نے اپنی گرجدار آواز میں کہا ’’حضرات ایوب خان چلا گیا اب اس کے خلاف کچھ پڑھنا میں بزدلی سمجھتا ہوں آج میں نئے حکمران جنرل یحییٰ خان کے خلاف اپنے تازہ اشعار سنائوں گا۔‘‘ ملک میں اس وقت بڑا سخت مارشل لاء تھا۔ یوں بھی ایوب خان کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد سیاسی پارٹیاں تھک سی گئی تھیں۔ جالب صاحب کی بات سن کر ہال میں سناٹا چھا گیا اور پھر جالب صاحب نے اپنی وہ غزل سنائی جس نے بعد میں بڑی شہرت پائی:
تم سے پہلے وہ جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
جنرل یحییٰ خان نے انتخابات ضرور آزادانہ کرائے۔ ان کا اور ان کے قریبی جرنیلوں کا خیال تھا کہ کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور یوں انہیں بھی جنرل ایوب خان کی طرح آٹھ دس سال اقتدار میں رہنے کا موقع مل جائے گا۔
جنرل یحییٰ خان نے انتخابی نتائج کے مطابق اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور پورے مشرقی پاکستان کو خون میں نہلا دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسا شدید ردعمل ہوا کہ ملک ہی دولخت ہو گیا۔ یہ بڑا ہولناک دور تھا ۔ایک دو کو چھوڑ کر سارا مغربی پاکستان مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی حمایت کر رہا تھا۔ ادیب اور شاعر جنگی ترانے لکھنے میں مصروف تھے۔ اس نازک اور کڑے وقت میں جالب صاحب نے لاہور کی مال روڈ پر اعلان کیا ’’حکمرانو میرا بیان ریکارڈ کرو۔ اس وقت چپ رہنا بددیانتی اور جیل سے باہر رہنا بے غیرتی ہے۔‘‘ اور پھریہ تاریخی قطعہ پڑھا۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اور پھر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ بچے کھچے پاکستان میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ ایوب خان کے خلاف بھٹو صاحب کے جو جلسے ہوتے تھے، اُن میں جب حبیب جالب نظم پڑھتے تو بھٹو صاحب تال دیا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ جالب صاحب نیشنل عوامی پارٹی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آ جائیں۔ پنجاب کی ساری نیپ جس کے رکن حبیب جالب بھی تھے۔ جب پی پی میں چلی گئی تو اپنی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں ممتاز قانون دان میاں محمود علی قصوری نے، جو پنجاب نیپ کے صدر تھے بھٹو صاحب سے کہا کہ ’’سر پنجاب کی ساری نیپ پی پی میں آ چکی ہے ایک حبیب جالب رہ گیا ہے اور وہ بھی۔۔۔‘‘ بھٹو صاحب نے میاں محمود علی قصوری کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’آپ جالب کی کیا بات کر رہے ہیں وہ میرے مشکل وقت کا دوست ہے نواب کالا باغ کی دہشت سے جب ہوٹل فلیٹیز میں کوئی میرے پاس نہیں بیٹھتا تھا تو یہ حبیب جالب تھا جو جلسوں، جلوسوں میں میرے ساتھ ہوتا تھا اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دوں گا۔ اس کے الیکشن میں پیسہ لگائوں گا، تقریریں کروں گا۔‘‘ جالب صاحب بھٹو صاحب کی بات کاٹتے ہوئے کہتے ہیں ’’جناب میں تو آپ کی پارٹی میں نہیں آ رہا کہیں سمندر بھی دریا میں گرے ہیں۔‘‘ جالب صاحب نیشنل عوامی پارٹی ہی میں رہے اور اسی پاداش میں حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ جس دن انہیں سنت نگر کے مکان سے گرفتار کیا گیا، اس دن ان کے بڑے بیٹے طاہر عباس کا سوئم تھا۔ بیوی اور بچیوں کو سوگوار چھوڑکر جب وہ تھانے پہنچے تو ڈی ایس پی نے کہا ’’آپ کے دیگر کامریڈوں سے بات ہو گئی ہے ۔انہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے ۔ اگر آپ بھی ولی خان کے خلاف بیان لکھ دیں تو ہم آپ کو ابھی چھوڑ دیں گے ورنہ عمر بھر حیدر آباد جیل میں سڑتے رہیں گے۔ یہ ایسا کیس ہے جس میں آپ شاید ہی زندہ بچیں۔‘‘ جالب صاحب نے ڈی ایس پی سے کہا ’’جیل میں تو میں شاید چند سال جی بھی لوں مگر معافی نامہ لکھ کر میں چند دن بھی زندہ نہیں رہ سکوں گا بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی کارروائی کریں۔‘‘ ڈی ایس پی نے بڑے غصے سے حوالدار سے کہا ’’اس کو ہتھکڑی ڈالو۔۔۔‘‘ اور یہ کہہ کر حیدر آباد روانہ کر دیا۔
جالب صاحب حیدر آباد جیل میں سال بھر رہے۔ بڑے بیٹے کی موت، بچیوں کی جدائی، گھریلو مسائل اور جیل کی صعوبتوں نے ان کی صحت کو تباہ کرنا شروع کر دیا تھا ۔علاج کے لئے ضمانت پر رہائی ہوئی۔ یہ ایک اچھا وقت تھا جب وہ دوسرے بہت سے دانشوروں اور سیاستدانوں کی طرح بغرض علاج لندن جا سکتے تھے مگر ان کے پاس تو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے ٹرین کا کرایہ نہ ہوتا تھا۔ چند دن علاج کرایا پھر جلسوں، جلوسوں میںاشعار پڑھنے لگے۔ بھٹو صاحب کے دور اقتدار میں جالب صاحب کی ایک نظم:
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
نے بڑی شہرت پائی۔ یہاں جالب صاحب کی شخصیت کے اس منفرد پہلو کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ بھٹو صاحب کے اقتدار سے محروم ہونے کے چند دن بعد میٹروپول ہوٹل میں ایک تقریب تھی جالب صاحب جیسے ہی مائیک پر آئے ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں۔
لاڑکانے چلو والی نظم سنائیں جالب صاحب نے بڑے غصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’بھٹو جیل میں ہے ان کی بیوی اور بیٹی مصیبت میں ہیں میں حکمرانوں کے خلاف اس وقت شعر پڑھتا ہوں جب وہ اقتدار میں ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی تازہ غزل سنائی جو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بارے میں تھی۔
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
کہاں تک دوستوں کی بے رخی کا ہم کریں ماتم
چلو اس بار بھی ہم ہی سرِ مقتل نکلتے ہیں
اس موقع پر میں اس غزل کا ایک اور خوبصورت شعر بھی سناتا چلوں کہ جس کو پڑھنے سے پہلے جالب صاحب کہا کرتے تھے کہ مجھے بھٹو سے سب سے بڑی شکایت اور شکوہ یہ ہے ۔
بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کر گیا ویراں
نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں
ان کا اشارہ بھٹو صاحب کے آخری دور میں لگائی جانے والی شراب پر پابندی کی جانب تھا۔جالب صاحب کی جر اٗت اظہار کا ایک اور واقعہ بھی سن لیں کہ بھٹو صاحب الیکشن جیت چکے تھے سیاسی جوڑ توڑ جاری تھا ۔صاف لگ رہا تھا کہ اگر وہ پورے ملک میں نہیں تو آدھے ملک میں ضرور اقتدار میں آئیں گے۔ کراچی میں 70 کلفٹن کے اندر اور باہر ایک ہجوم ہوتا تھا۔ جالب صاحب نے ایسٹرن اسٹوڈیو سے بھٹو صاحب کو فون کیا۔ بھٹو صاحب کے ذاتی ملازم نورا نے فون اٹھایا اور کہا ’’صاحب اندر ہیں‘‘۔ جالب صاحب کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ ان میں بلا کی حس مزاح تھی۔ نورا کی بات سن کر جالب صاحب کہتے ہیں ’’ابھی تو باہر آئے ہیں، کیا پھر اندر ہو گئے۔‘‘ نورا نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ’’نہیں صاحب باتھ روم میں ہیں۔‘‘ اتنے میں بھٹو صاحب باتھ روم سے باہر نکل کر نورا سے فون لے کر کہتے ہیں ’’جالب آ جائو، ابھی آ جائو۔‘‘ جالب صاحب نے کہا ’’آپ کو معلوم ہے کہ میری آپ کی ملاقات شام کو ہوتی ہے۔ تیار رہیے گا شام کو آئوں گا۔‘‘ جالب صاحب جب 70 کلفٹن پہنچے تو ڈرائنگ روم سمیت ملحقہ کمرے جاگیرداروں اور وڈیروں سے بھرے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب نے جالب صاحب کے لئے اہتمام کیا ہوا تھا بھٹو صاحب جب ذرا موڈ میں آئے تو کہا ’’جالب کوئی نظم سنائو۔۔۔‘‘ پہلے تو جالب صاحب نے ٹالا مگر جب بھٹو صاحب نے اصرار کیا تو جالب صاحب نے اپنی مشہور زمانہ نظم سنائی۔
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
جالب صاحب کی نظم کا ابھی پہلا بند ہی ختم ہوا تھا کہ بھٹو صاحب نے جالب صاحب کو روکتے ہوئے کہا ’’کوئی اور نظم سنائو اس وقت سندھ اور پنجاب کے سارے بڑے وڈیرے اور جاگیردار میرے ساتھ بیٹھے ہیں مجھے ابھی ان کی ضرورت ہے۔۔۔‘‘ جالب صاحب بھٹو کی بات سن کر کہتے ہیں۔ ’’جناب آپ یہ چاہتے ہیں کہ جب نواب سلطان چانڈیو اور نواب صادق قریشی آپ کے پاس بیٹھے ہوں تو میں پڑھوں۔
کھیت وڈیروں کو دے دو
جب سہگل اور آدم جی آپ کے پاس آئے ہوں تو میں پڑھوں
ملیں لٹیروں کو دے دو
جب عزیز احمد خان اور روئیداد خان آپ کے پہلو میں ہوں تو میں کہوں
ملک اندھیروں کو دے دو
جناب میں تو لے لو والا ہوں اگر مجھ سے آپ دوستی رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو یہ نظمیں سننی پڑیں گی۔ ‘‘ بھٹو صاحب نے بڑھ کر جالب صاحب کو گلے لگاتے ہوئے کہا ’’اچھا بابا جو چاہو سنائو اور ہاں آخر میں وہ کالا باغ سبز باغ والی ضرور سنوں گا۔‘‘
اور پھر جنرل ضیا الحق کا طویل مارشل لا آ گیا۔ تنگدستی، بیروزگاری اور مسلسل جیل کی صعوبتوں نے جالب صاحب کو خاصا نڈھال کر دیا تھا مگر ان کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی نہیں آئی تھی کراچی پریس کلب نے جب انہیں کلب کی تاحیات رکنیت دی تو پہلی بار انہوں نے اپنی مشہور نظم’’ ظلمت کو ضیاء‘‘ سنائی۔
ایک حشر بپا ہے گھر گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ درد اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری، کی ہم نے انہی کی غم خواری
ہوتے ہوں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
کراچی پریس کلب میں اس نظم کو پڑھنے کے بعد جالب صاحب گرفتار ہو گئے۔ اس بار انہیں پنجاب کی بدنامِ زمانہ جیل میانوالی سینٹرل جیل کی سی کلاس میں رکھا گیا۔ میانوالی کچی جیل ہے اور بڑی سخت کہلاتی ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جالب صاحب کو بلا کر کہا ’’جالب صاحب یہاں آپ کو قلم ملے گا نہ کاغذ آپ کی شاعری بھی آپ کے ساتھ بند رہے گی۔‘ ‘ جالب صاحب نے جیل سپرنٹنڈنٹ کی پررعب آواز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’میری شاعری کو قلم اور کاغذ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ بڑی سادہ اور آسان ہوتی ہے میں اپنا شعر تمہارے حوالدار کو سنائوں گا۔ یہ باہر جا کر شہر کے چوک میں سنائے گا۔ وہاں سے یہ شعر سفر کرتا ہوا لاہور پہنچے گا اور پھر سارے پاکستان میں پھیل جائے گا۔‘‘
یہاں مجھے جالب صاحب کی میانوالی جیل سے باہر آنے والی ایک اور نظم یاد آ رہی ہے کہ اس وقت میانوالی جیل کی سختیوں سے تنگ آ کر بعض بڑے نامی گرامی دانشوروں اور سیاست دانوں نے معافی نامے لکھنے شروع کر دیے تھے۔ جالب صاحب نے اس وقت کہا۔
دوستو جگ ہنسائی نہ مانگو
موت مانگو رہائی نہ مانگو
جالب صاحب کی اس نظم کا جیل میں اتنا اثر ہوا کہ بیشتر لوگوں نے اپنے لکھے ہوئے معافی نامے پھاڑ دیے۔ میانوالی جیل کی سختیاں تو جالب صاحب نے جھیل لیں مگر اس جیل نے انہیں ایسی بیماریاں دیں جنہوں نے ان کا موت تک پیچھا نہیں چھوڑا۔
ایک روز جنرل ضیا ء الحق کے وزیر اور ممتاز سیاستدان چوہدری ظہور الٰہی نے جو جالب صاحب کے اچھے دوست بھی تھے میانوالی جیل میں پیغام بھجوایا کہ میں تمہیں آج جیل سے باہر لے جا سکتا ہوں بس اس نظم سے ایک مصرعہ نکال دو۔
ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا والا
جالب صاحب نے چوہدری ظہور الٰہی کو واپس پیغام بھجوایا ’’آپ کو معلوم ہے میں اپنا کہا ہوا شعر واپس نہیں لیتا ۔میرا شعر جب باہر آتا ہے تو عوام کی امانت ہو جاتا ہے۔ میں اگر یہ مصرعہ اپنی نظم سے نکال بھی دوں تو جب تک ضیا ء الحق برسر اقتدار ہے عوام مجھ سے یہ نظم سننا چاہیں گے اور میں انہیں سنائوں گا۔‘‘
اور پھر فوجی آمریت کی وہ طویل اور سیاہ رات بھی اپنے انجام کو پہنچی۔ ضیاء الحق کے بعد بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں۔ ان کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے جالب صاحب کی بینظیر بھٹو کے بارے میں یہ نظم شہرت پا چکی تھی۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں مرے ہوئے ہیں
لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملا تاجر ،جنرل ،جیالے ایک نہتی لڑکی سے
پیپلز پارٹی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد اسلام آباد میں اپنے ساتھ منائی جانے والی ایک شام میں جالب صاحب نے یہ مشہور غزل سنائی۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
تقریب ختم ہوئی تو چوہدری اعتزاز احسن نے کہا یوں تو اور بھی ہماری حکومت کے مخالف ہیں مگر جالب نے بھی شعر کہہ دئیے اب ہمارا اقتدار میں رہنا مشکل ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کے پہلے دور میں جالب صاحب کی طویل جدوجہد کو اس طرح سراہا گیا کہ ان کی کتاب ’’حرف سر د ا ر‘‘ کو نیشنل بک فائونڈیشن کی ایک تقریب میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ایوارڈ کے ساتھ ایک لاکھ روپے بھی دیے اور وہ تمام پیشکشیں بھی کیں جن سے ان کے رات دن پھر سکتے تھے۔ مگر جالب صاحب نے اپنی روایتی شان بے نیازی سے کہا کہ ایسی کیا جلدی ہے۔
پی پی کی حکومت نے ابھی چند ماہ پورے کیے تھے کہ ایک طرف تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا پرانا کھیل شروع کر دیا، دوسری جانب عوام کے مسائل کا ایک سیلاب تھا جس پر بند باندھنا آسان نہ تھا۔ اگست 90ء میں صدر غلام اسحاق خاں نے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر دی ان کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت آئی۔
جالب صاحب کا زیادہ وقت اب اسپتالوں میں گزرنے لگا تھا۔ ان کا جسم بیماریوں نے لاغر اور کمزور کر دیا تھا چند قدم چلتے ہی سانس پھول جاتی مگر اس عالم میں بھی ان کے اندر کا شاعر توانا رہا۔ وزیراعظم نواز شریف نے سیلاب کی تباہ کاریوں میں گھرے عوام سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ میں تمہارے لئے جان دے دوں گا تو اگلے ہی دن روزنامہ جنگ لاہور میں جالب صاحب کے یہ اشعار چھپے۔
نہ جاں دے دو، نہ دل دے دو
بس اپنی ایک مل دے دو
زیاں جو کر چکے ہو قوم کا
تم اس کا بل دے دو
مگر یہی وہ وقت تھا کہ جب جالب صاحب کے یہ شعر بھی آنے لگے ۔
بہت تذلیل تو کر لی ہماری زندگانی کی
اجازت موت کی اب ہم کو بن کے رحمدل دے دو
میں نے لاہور کے شیخ زید اسپتال جا کر جالب صاحب سے کہا’’ یہ شعر آپ کو نہیں کہنا تھا۔ ابھی ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔‘‘جالب صاحب نے بجھتی آنکھوں ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا ’’مجاہد علی‘‘ و ہ ہمیشہ مجھے مجاہد علی ہی کہا کرتے تھے، ’’یار مارے گئے نا۔‘‘ جالب صاحب نے یہ بات کچھ اس انداز میں کہی کہ میں ان سے آنکھ نہیں ملا سکا۔ اس ایک جملے میں وہ اپنی زندگی بھر کی جدوجہد اور محرومیوں کی طویل داستان کہہ گئے تھے۔ عموماً اس سے پہلے جب وہ اس طرح بات کرتے تو میں ان سے کہتا ’’نہیں جالب صاحب یہ حکومت بھی زیادہ نہیں چلے گی۔ جلد ہی حالات بہتر ہوں گے اور ہاں وہ آپ کی نئی کتاب بھی تو آ رہی ہے، اس کی تقریب کریں گے سوونیئر نکالیں گے اب تو آپ کے پاس پاسپورٹ بھی ہے باہر کا ایک چکر لگائیں گے۔ کچھ بات بن ہی جائے گی۔‘‘ مگر اپنے انتقال سے تین ہفتے قبل انہوں نے جب یہ بات کہی تو مجھے چپ سی لگ گئی۔ کہتا بھی کیا حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اگر ذاتی حالات بدلنے کے فارمولے پر جالب صاحب نے عمل کیا ہوتا تو ان کے حالات کب کے بدل چکے ہوتے۔ ہم نے اپنے وطن عزیز کے بیشتر شاعروں اور دانشوروں کو دیکھا ہے کہ جنہوں نے جنرل ایوب خان کی مخالفت کی انہوں نے بھٹو صاحب کے دور میں خود کو کیش کرا لیا۔ جنہوں نے بھٹو کی مخالفت کی انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیش کرا لیا۔ جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کی مخالفت کی انہوں نے بے نظیر کے دور میں خود کو کیش کرا لیا، بے نظیر بھٹو کی مخالفت کرنے والوں نے میاں نواز شر یف کے دور میں خود کو کیش کرا لیا۔ مگر جالب صاحب ایک ایسا چیک تھے کہ جنہیں کیش کرانے کی حسرت ہر آمر وقت کے دل میں مچل مچل کر دم توڑ گئی۔
جالب صاحب آپ کو مارا جانا ہی تھا۔۔۔اسپتال کے بیڈ پر بیوی بچوں کے ساتھ یا مجھ جیسے کبھی کبھار حال احوال پوچھنے والوں کے ساتھ۔ کمال ہے آپ جیسا حساس شاعر اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکا کہ یہ شاعری اور وہ بھی ہر دور میں ہر حکومت کے خلاف آپ کو اور کیا دیتی۔ جالب صاحب آپ تو ابتداء ہی سے خود کو مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ ایوب خان کے خلاف دس سال جدوجہد کافی تھی اسی دوران جو بھٹو صاحب کے ساتھ تعلق ہوا تھا اسے جاری رکھتے۔ بھٹو صاحب سے دوستی کے بجائے ان پر مصرعے لگا رہے ہیں۔
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
جنرل ضیاء الحق کے دورمیں بغرض علاج لندن جانے کے بجائے فوجی آمریت کے عین عروج میں ان کو للکار رہے ہیں۔
بندے کو خدا کیا لکھنا
اور تو اور بیمار ہیں مگر بے نظیر بھٹو سے شکوہ کر رہے ہیں۔
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
چلیں یہاں تک بھی بات سمجھ میں آتی ہے مگر جب اسپتال میں دم آخری لبوں پہ تھا، کم از کم اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ہی خاموش رہتے اور چودھری شجاعت حسین کے لائے ہوئے پانچ لاکھ روپے تکیے کے نیچے رکھ لیتے۔ الٹا انہیں مشتعل کر رہے ہیں۔
بس اپنی ایک مل دے دو
جالب صاحب بھلا یہ بھی کوئی شاعری ہوئی آپ کو تو مارا جانا ہی تھا۔
