میری کہانی میری زبانی – قسط نمر 66

تیرے سمندر میں کیا کمی تھی
طالب ڪڇي
ماحولیاتی تبدلی سے کوی انکار نھیں کر سکتا پوری دنیا اسکی لپیٹ میں ھے جب میں آم ماھیگر تھا تو زیادہ بہت سی باتوں کو نظر انداز کر دیا کرتا تھا جب سماجی سرگرمیاں اور ماھی گیروں پہ کام کیا تو ظاھر ھے بیتے دنوں کی یادیں سمندر کی اپنی ماضی کی بہت سی باتوں یا اپنے سمندر کے تجربہ کو دوستوں سے شیر کرنا بھی ضروری سمجھتے ھیں ھم دیکھتے ھیں کہ وقفن وقفن سے ماحولیاتی تبدلی پر مختلف سیمنار میں ماحیرین اس پہ بات کرتے ھیں اس پہ انکا بہت مطالہ بھی ھوتا ھے اور ھم خد انکی باتوں سے بہت کچھ سیکھتے ھیں اور انسان کو سیکھنے میں کوی حرج بھی نھیں میں بنیادی ماھی گیر ھوں تو بچپن سے سمندر کو مختلف روپ میں دیکھا ھمیں خوشی ھوتی ھے جب بہت سے ادارے ھم دوستوں سے سمندر یا ماحولیات یا سمندر کی زندگی کے بارے میں معلومات لیتے ھیں اس سلسلے میں میرے ساتھی مجید موٹانی بھی اس سلسلے کو لکھتے رھتے ھیں مجھ سمیت دیگر ھمارے ماھیگر جسے ھم گاتو کہتے ھیں سمندر کے حوالے سے انکا اپنا تجربہ سے انکار نھیں ایک تو ھم نے اپنے طور پہ سمندر کو دیکھا اور اپنے بزرگوں سے بھی ماضی کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا موجودہ ماحولیاتی تبدلی سے انکار نہ ممکن ھے جو ھم خد دیکھ رھے ھیں میں آپ دوستوں کو ماضی میں لیے چلتا ھوں کیا وجہ ھوا کرتی تھی کہ کبھی کبھی دو دو ماہ تک سمندر مچھلی سے کھالی وہ بھی کراچی سے سیر کریک تک جھینگا مچھلی سمندر سے غایب یہ 1973 کی بات ھے اس وقت نہ اور فشنگ تھی نہ سمندر اتنا آلودہ تھا نہ لانچوں اور کشتیوں کی تعدات بھی تین یا چار ھزار سے زیادہ نہ تھی نہ فشر ھار بر میں نہ لانچوں کا جمع غفیر نہ لوگوں کا ھجوم نہ رات کو فشنگ پر ایک سال ایسا بھی تھا یو لگ رھا تھا جیسے سمندر مچھلی سے اور جھینگے سے خالی ھو چکا ھو جب ھماری لانچ النور جو چھوٹی سی لانچ تھی اور اس وقت چھوٹی چھوٹی لانچیں ھوا کرتی تھی دس سے بارہ دن سمندر میں گزارتے تھے تیل بھی سستہ تھا راشن برف سب سستہ تھے ایک ٹرپ 10 دن کے 1200 روپے خرچہ ھوا کرتا تھا جب بندہ 12 دن سمندر میں وہ بھی 35 فٹ کی لانچ میں گزارے تو ظاھر ھے اسے اسی حال میں خوش ھونا ھوتا ھے میری طرح دوسرے ماھی گیر ساتھی بھی فارغ وقت میں گیت گن گنہاتے یا تاش کے پتوں سے دل بہلاتے میرا زیادہ وقت لانچ کے سرے پہ بیٹھے تنہاں فلمی گیت گاتا رھتا سمندر پہ جھولتی لانچ پر کبھی کبھی بل کل شکار نہ ملتا تو اکسر محمد رفیق کا یہ گیت گاتا بتا مجھے او جہاں کے مالک یہ کیا نظارے دیکھا رھا ھے تیرے سمندر میں کیا کمی تھی جو آدمی کو رلا رھا ھے اک ایسا یہ سال جب سمندر میں کچھ نہ تھا سمندر خالی تھا جھنگا مچھلی اور دیگر مچھلی بھی سندھ کے سمندر سے بل کل غایب ھوچکی تھی ھماری لانچ کے ناخدا اسمعیل کبری مرحوم بہت سوج بوج رکھنے والا ناخدا تھا اس نے سوچا کیوں نہ ھم سون میانی بلوچستان کی طرف گند مچھلی جو فیلڈ میں کام آتی ھے اسے شکار کریں بار حال صبح فش ھار بر کراچی سے نکلتے تو چار بجے شام وھاں پونچ کر جال پھینکتے سمندر میں تو فیلڈ کی صرف مچھلی جسے مرغی دانے میں استمال کی جاتی تھی اس سے جال بھر جاتا اور اس طرح ھم رات دوبجے تک لانچ کے اوپر پوری لانچ اس سے بھر دیتے کیوں کہ اس وقت یہ فیلڈ کی مچھلی برف میں نھیں رکھتے تھے فرج کرکے بارحال صبح کراچی فشری میں وہ گند مچھلی نیلام ھوتی تو ٹوٹل 4000 ھزار روپے کی ھوا کرتی تو فی خلاسی ۔ مزدور۔ کو ایک سو سے سوا سوروپے پتی مل جاتی تھی اور نہ ملنے سے بہتر تھا کچھ گزارہ ھوجاتا تھا ھماری دیکھا دیکھی میں دیگر لانچیں بھی یہ سلسلہ شروع کردیا میرے خیال میں کوی لگ بگ دو ماہ تک سمندر میں مچھلی کی کلت تھی جسے ھم ماھیگر کھورای کہتے ھیں اس وقت لانچ سے ساری مچھلی خلاصی خد اوتارا کرتے تھے ٹالی پہ مچھلی وغیرہ ڈال کر مارکیٹ میں نھیں لے جاتے تھے اول تو ٹالی تھی ھی نھیں ھم اگر لانچ سے مچھلی یا جھینگے آکشن کے لیے لے جاتے تو آٹھ سے دس بندے کتار میں کھڑے ٹوکڑی کا ایک کڑا اس ھاتھ میں دوسرا بایں ھاتھ میں اور لمبی کتار کی صورت میں آکشن ھال میں لے آتے سارے بیوپاری اور فیکٹری والے آکشن ھال میں آتے اور کسی ایک لانچ کی جھینگے کی ٹوکڑی کو کلٹی کرتے اور ریٹ تے کرتے اور پوری مارکیٹ میں جھینگے مچھلی ایک ریٹ ھی میں نیلام ھوا کرتی تھی پورا آکشن ھال میں آپ جس جگہ چاھیں مچھلی رکھیں کوی منا کرنے والا نھیں تھا کیوں کہ فشری ماھیگروں کی تھی اور اس ماھی گیری سے وابستہ مقامی لوگ تھے بلوچ کچھی اور سندھی مہانے یہی لوگ ناخدا تھے ھاں جب بنگلا دیش نھیں بنا تھا تو بنگالی کافی لانچوں میں ڈریور ھوا کرتے تھے پر وہ غیر مقامی لانچ مالکان کی لانچوں میں ڈریوڑ ھوا کرتے تھے لانچ مالک اسے ایک ماہ کی تنخوا دیا کرتے تھے پر مقامی لانچ مالکان کی لانچوں میں ڈریور مقامی لوگ ھوا کرتے تھے فشرمین کو آپرٹیو سوسایٹی کا ایک کردار تھا کسٹم زیادہ من مانی نھیں کیا کرتے تھے ایک دن کی پیسی کے جسے ماھیگرحیلا کہتے ھیں لانچ صبح شکار پہ جاے اور شام کو واپس آے تو کسٹم کی فیس صرف دو روپے تھی اور برف پہ آٹھ یا دس دن کے لیے پیسی کی فیس پانچ روپے تھی میرے خیال میں 1980 تک برف کی پیسی کی فیس 20 روپے تھی اور اب کسٹم کی فیس برف کی لانچوں کی 5000 سے 12000 ھزار کم سے کم کوی پوچھنے والا نھیں ان سے بار حال آتے ھیں اصل بات کی جانب 1974 میں بھی اس طرح سمندر میں جھینگے مچھلی کی قلت تھی تو کافی لانچیں ڈوری سے مچھلی کے شکار کء لیے بلوچستان کی طرف شکار کے لیے روانہ ھوجایا کرتی تھی اس وقت ڈاند مچھلی بہت ھوا کرتی تھی اور وہ کھانے میں بھی بہت زایقہ دار تھی مجھے یاد ھے ھم نے کافی تعدات ڈند مچھلی لاے تو شام کو فشری پونچے تو کھارادر پہ ھوٹل پہ کھانا کھاکر ریوالی سینما میں اس وقت فلم لگی تھی محمدعلی اور وحیدمراد اور دیبا کی فلم حقیقت وہ فلم دیکھ کر رات ایک بجے لانچ پہ آے اور مچھلی آکشن ھال میں لے آے پتا ھے ایک مچھلی کا دانہ دس آنے میں ریٹ تے ھوا ھمیں پتا چلا کے دو دن پہلے ایک مچھلی ڈھڈ روپے ریٹ میں چلی تھی ساری رات محنت کی پر ریٹ ایک مچھلی دس آنے ڈاند مچھلی کم سے کم پانچ کلو کی ھوا کرتی تھی پھر بھی لانچ کا خرچ نکال کر دو سو روپے پتی ملی آج یہ ڈاند مچھلی جو بڑی تعدات میں ھوا کرتی تھی آج آپ کو پورے سمندر میں ایک دانہ بھی نھیں ملے گا اور یہ مچھلی بیس سال سے نایاب ھے یہ گیی کہا اس کا نام و نشان نھیں میں سمجھتا ھوں سمندر میں پہلے بھی ماحولیاتی ردو بدل یا کوی خرابی ھوا کرتی تھی جس کے سبب سمندری جیوت کہی دور پناہ لیتے تھے جب کے نہ سمندری آلودگی تھی نہ موجودہ صورتحال نہ اور فشنگ پر ایک تبدیلی ضرور آی کہ جب سے دریاے سندھ کو ڈیموں کے پیچھے قید کیا گیا ھے سمندر میں پنی کا نہ آنے کے سبب بہت سی مچھلی کی نسلیں بل کل ختم ھو چکی ھیں پر یہ بھی حقیقت ھےجب سیلاب آتا ھے تو اس سال سیزن مچھلی کا بہت اچھا ھوتا ھےاس سال سیلاب کی وجہ سے لانچوں کا سیزن بہت بہتر رھا ھے حالکہ ڈیزل بہت مہنگا ھے پر یہ سیلاب کی صورت میں سمندر میں جب دریاے سندھ کا داخل ھونے سے بہت تبدلی آتی ھے ھمیں معلوم ھے اور ماحیرین کا یہ کہنا ھے دریا اپنے ساتھ وہ شلٹ لاتے ھیں جس سے سمندر کو نیی زندگی ملتی ھے سمندری جیوت میں اظافہ ھوتا ھے اس لیے فطرت کو نہ چھیرا جاے سمندر کو اتنا پانی دیا جاے جو اسکی ضرورت ھے اس سے ھماری زمین بھی سہراب ھونگی اور ھم سیلاب کی تباھی سے بھی بچ سکتے ھیں ماحولیاتی تبدلی اب تو مسلسل اپنا رنگ دیکھا رھی ھے پر وہ بھی کچھ ماحولیات کی وجہ سے جب مچھلی سے سمندر خالی ھوتا تھا تو یہ گیت یاد آتا تھا بتا مجھے او جہاں کے مالک یہ کیا نظارے دیکھا رھا ھے ۔ تیرے سمندر میں کیا کمی تھی جو آدمی کو رلا رھا ھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں